وقت خود پیچھے رہا دکھ درد کو آگے کیا
ہم نے بازو کھول کر چپ چاپ بانہوں میں لیا
شام کی خوشبو میں تھیں پاگل ہوا کی دھڑکنیں
ہم نے بھی کھڑکی پہ اک جلتا ہوا رکھا دیا
شاعری کو آپکے رخسار سے چھو کر پڑھیں
ہو غزل دلی کی یا پنجاب کا ہو ماہِیا
سوئیاں دیوار پر لاکے گھماؤں کس طرف
دیر تک مرنا ہی تھا جو مختصر کیونکر جیا
یوں کُھلا رہنے دیا کب درد و غم کا پیرہن
اشک نے ٹانکے پروئے چاک آہوں نے سِیا
رات کا پچھلا پہر تھا ہمنشیں بس اور تم
تشنگی کا زہر سارا جام بھر بھر کر پیا
حاصلِ آوارگی شیدؔا ریاضی کی طرح
عشق نے سب کچھ لٹایا حسن نے دھوکہ دیا
*علی شیدؔا*

0
57