زندگی اٹھ کر سفر ڈھونے لگی
اک مسافر کی طرح ہونے لگی
آنکھ، جس نے ہجر کاٹا جاگتے
مدتوں کے بعد اب سونے لگی
یہ نئے موسم کی بارش آتے ہی
اک پرانے خواب کو دھونے لگی
ابرِ غم کی سیدھ میں آنا پڑا
دھوپ چھاؤں میں کہیں کھونے لگی
اب کے کاٹیں فصل پھر برسات کی
بیج آنکھوں میں نمی بونے لگی
ہم نے شیدؔا عکس پر لب رکھ دئے
آئنے کی آنکھ بھی رونے لگی

0
55