ہم اذیت کے خرابے سے اٹھائیں آنسو
رات کاٹے تو چراغوں میں جلائیں آنسو
دھوپ سلگی ہے ابھی شعلۂ حدت باقی
پیاس جب ہوش میں آئے تو پلائیں آنسو
کوئے امکاں میں شناسا تو کوئی مل جاتا
ہجر زادے ہیں بھلا کس کو دکھائیں آنسو
زندگی نت نئے مصرف کے تقاضے تیرے
دو عدد آنکھوں سے ہم کتنا کمائیں آنسو
پھر وہی خواب لگے کانچ سا کوئی ٹوٹے
پھر تماشائے سرِ شام ستائیں آنسو
ہر کوئی شخص چھپائے ہے نمی پلکوں میں
کون اس شہر میں اب کن کے چرائیں آنسو
ہم ابھی غم کے سمندر میں پڑے ہیں شیؔدا
جادۂ دشت پہ آئیں تو لٹائیں آنسو

0
23