شوق کو آر پار ڈالا ہے
دل کی سرحد کو مار ڈالا ہے
روز اٹھتا دھواں ہے دل سے کیوں
کس نے یہ انتشار ڈالا ہے
ہجر کا ہائے ناتواں دل پر
بوجھ کیوں بار بار ڈالا ہے
ہوگیا بے لباس آئینہ
کس نے چولا اتار ڈالا ہے
خود نشے میں جو آج ساقی ہے
پانیوں میں خمار ڈالا ہے
ہجر میں اشکبار رنگوں سے
عکس تیرا نکھار ڈالا ہے
ایک ہی قتل ہم پہ واجب تھا
اپنے شیدؔا کو مار ڈالا ہے

0
76