بجھی راکھ کیوں خواب گاہوں پہ ڈالیں
دھواں گرم ہے سرد آہوں پہ ڈالیں
نیا مسئلہ ہے نئی گفتگو ہو
نیا بوجھ کتنا گناہوں پہ ڈالیں
ہمیں پوچھنا آہٹوں سے پڑے گا
اٹھا کر سفر کتنی راہوں پہ ڈالیں
اسی بات پر ہو گیا عدل راضی
کہ الزام سارا گواہوں پہ ڈالیں
یہی عظمتِ سر کو رسوا ہیں کرتے
چلو خاک ہی کج کلاہوں پہ ڈالیں
کہ جن سے ہوا پیرہن چاک میرا
یہ چادر انہی خیر خواہوں پہ ڈالیں
ذرا عکسِ منظر پلٹ جائے شیدؔا
نظر اپنی اپنی نگاہوں پہ ڈالیں
*علی شیدؔا*

0
57