جمالِ یار کے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
|
میں یوں جم کے کھڑا ہوں دیکھ حیرانی نہیں جاتی۔
|
قسم ہے تم سے مل نے کی پریشانی تھی لیکن اب
|
پریشانی ہے مل کے بھی پریشانی نہیں جاتی۔
|
ہمیں بھی شوق ہے ملنے کا تجھ سے موت لیکن سن
|
کریں ہم کیا کے رستے کی یہ طولانی نہیں جاتی۔
|
|