غزہ کی رات خاموش تھی، مگر پُر سکون نہیں۔ ستارے چمک رہے تھے، جیسے وہ ہمیشہ چمکتے تھے گویا انہیں نیچے ہونے والے حادثوں کا علم نہ تھا۔
عمارہ صرف 9 سال کی تھی۔ اسے پھولوں اور پرندوں کی ڈرائنگ کرنا بہت پسند تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی سمیع ، 6 سال کا تھا، جو اپنے والد کے بنائے ہوئے پرانے کپڑے اور دھاگے کی پتنگ کو دوڑاتے ہوئے خوش رہتا تھا۔ جب آسمان میں طیاروں کی گونج سنائی دیتی، تب بھی وہ بے خوف دوسرے بچوں کی طرح جینا چاہتے تھے ، جب بھی ممکن ہوتا، کھیل کود کرتے، اور جب ضرورت پڑتی، چھپ جاتے۔ یہ انکھ مچولی کا کھیل برسوں سے جاری تھا۔
ان کا گھر چھوٹا تھا، دراڑوں سے بھرا ہوا ، مگر محبت سے بھرا ہوا ۔ کھانا کم تھا مگر اللہ کا کرم تھا زیادہ تر دن روزے سے گزر جاتے تھے۔ ان کی ماں، ہاجرہ ، انہیں موم بتی کی روشنی میں پڑھاتی بھی تھی اور رات میں کہانیاں بھی سناتی تھی، کیونکہ زیادہ تر راتوں میں بجلی نہیں آتی تھی۔ ان کے والد ان کی روح کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے، کیونکہ گھر اور سڑکیں اب محفوظ نہ تھیں۔
اچانک ایک صبح، زور دار آواز نے زمین کو ہلا دیا۔ گرج سے بھی بلند آواز ، بہت قریب۔
ان کے گھر کے پاس والی عمارت پلک جھپکتے ہی مٹی کا ڈھیر بن گئی۔ دھواں اٹھا۔ لوگ چلاّئے۔ عمارہ نے سمیع کو اپنے قریب سینے سے لگا لیا، اس کے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے۔ "سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے،" اس نے سرگوشی کی، حالانکہ وہ خود کانپ رہی تھی۔
اس دن، بہت سے بچے واپس نہیں آئے۔ کچھ ملبے میں دب گئے۔ کچھ کا پتہ نہیں چلا۔ پھول مٹی میں مل گئے، کھلونے ٹوٹ گئے۔ اسکول کی کتابیں جل گئیں۔
چند دن بعد، ایک بڑے ملبے کے ڈھیر سے ، جہاں کبھی گھر آباد تھے، ایک شخص نے بچی کا نوٹ بک پایا۔ اس کے اندر گھر کی ڈرائنگ تھی جس میں پھول اور پرندے تھے۔ چھت پر اسٹک کے بچے بنے تھے. ایک مسکراتی ہوئی فیملی۔اور آسمان سے چند آگ برساتے طیارے ۔ اس کے ساتھ بچی کا نوٹ لکھا تھا
"مجھے امید ہے کہ ہم بھی خوش رہ سکیں گے۔ میں محفوظ رہنا چاہتی ہوں۔"
غزہ کے لوگ بچوں کو اس طرح یاد نہیں کرتے کہ وہ کیسے شہید ہوئے۔۔ نہیں، بلکہ وہ بچے کیسے جئے ۔ ہمت، خوابوں اور دلوں میں محبت کے ساتھ، جب کہ ان کے آس پاس کی دنیا تباہ ہو رہی تھی۔
معلومات