ہر ملاقات پہ اک زخم نیا دیتا ہے
زخم کے دینے کو انداز نیا دیتا ہے
اپنے دامن میں جو خورشید لیے بیٹھا ہے
شب کے مارو کو وہ جگنو سا دیا دیتا ہے
اے خدا ایسی محبت کا کروں کیا آخر
جو بھی دیتا ہے محبت میں زیاں دیتا ہے
ہونٹ سی دیتا ہے سائل کے یہ منصف میرا
اور ظالم کو یہ پھر زور بیاں دیتا ہے
ڈال کے پردے کئی چہرے پہ جو آتا تھا
روئے روشن کی وہ محفل میں ضیا دیتا ہے
ہم پہ ہر لمحہ گزرتا ہے قیامت، لیکن
جاتے جاتے علی وجدان نیا دیتا ہے

0
42