جمالِ یار کے دریا کی طغیانی نہیں جاتی |
میں یوں جم کے کھڑا ہوں دیکھ حیرانی نہیں جاتی۔ |
قسم ہے تم سے مل نے کی پریشانی تھی لیکن اب |
پریشانی ہے مل کے بھی پریشانی نہیں جاتی۔ |
ہمیں بھی شوق ہے ملنے کا تجھ سے موت لیکن سن |
کریں ہم کیا کے رستے کی یہ طولانی نہیں جاتی۔ |
غبارِ عہد رفتہ اس طرح چھایا ہے آنکھوں پر |
جو صورت جانی مانی تھی وہ اب جانی نہیں جاتی۔ |
محبت کے سفر میں انتہا گردن زنی ٹہری |
ستم یہ جان بھی اس راہ میں مانی نہیں جاتی۔ |
کوئی جو بات کرنی ہو تو پہلے سہرا پڑھتے ہیں |
علی یاروں کی جانے کیوں پشیمانی نہیں جاتی۔ |
علی عمران |
معلومات