اُٹھاؤ رُخ سے حجاب جاناں گلاب رُخ کی میں دید کر لوں
|
قریب آکر ، نظر ملا کر ، گلے لگا لو میں عید کر لوں
|
تمہارے شیریں لبوں سے ساقی شرابی لذت کشید کر لوں
|
جو تجھ کو چھو کر نشہ ہوا ہے ، اضافہ اس میں مزید کر لوں
|
جفائیں کب تک کرے گے مجھ سے ملے گا کب تک رقیب سے یوں
|
بٹھا کے دونوں کو روبرو ، اُن سے حتمی گفت و شنید کر لوں
|
|