حیات تیری طلب میں جاناں نجانے کب سے بھٹک رہی تھی
|
دیار ہستی میں روح میری تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی
|
پھر ایک دن تو یوں روبرو تھی کہ چاندنی سی دمک رہی تھی
|
شباب تیرا مچل رہا تھا ، تو کلیوں جیسی چٹک رہی تھی
|
نشیلی آنکھوں کے ساغروں سے شرابی مستی چھلک رہی تھی
|
قصور میرا نہیں تھا ہرگز نظر جو میری بہک رہی تھی
|
|