Circle Image

Laeeq Akbar Sahaab

@Laeeq

مقدس ہوئے سینے چاک اس جہاں پر
ہوا ظلم اندو ہناک اس جہاں پر
کیے قتل معصوم دھوکے میں لا کر
ہوا دھوکا افسوس ناک اس جہاں پر
اٹھایا مقدس سروں کو اَنی پر
ہوا واقعہ شرم ناک اس جہاں پر

8
( بزم یاران سخن اور بزم کامرانی کو خراج تحسین )
جگرا ہے بزمِ یاراں سجاتے ہیں بزم کار
جگرے کے ساتھ دھن بھی لگاتے ہیں بزم کار
بزمِ مشاعرہ کو سجانا نہیں مذاق
کرتب ہزار طرح دکھاتے ہیں بزم کار
دمام ہو یا شہرِ خبر یا ہو پھر جبیل

4
کرتے وہ ہو کہ نہیں جس کا ہوا حکمِ خدا
سارے اعمال ہی قرآں سے جدا ہیں تیرے
کیسے پھر سچا خدا تجھ کو ملے گا غافل
سینکڑوں  دل میں بسے جُھوٹے خدا ہیں تیرے

0
2
جلوے کچھ ہوش رُبا زیرِ قبا رہتے ہیں
ہم فقط صورت و سیرت پہ فدا رہتے ہیں
خوشیوں کے جگنو پکڑنے میں سدا رہتے ہیں
خود غرض لوگ بدستور خفا رہتے ہیں
توڑ کر دل کو وہ جب ہم سے خفا رہتے ہیں
کتنے ہنگامے دل و جاں میں بپا رہتے ہیں

12
اللہ ہے لا شریک، کوئی اس میں ضم نہیں
توحید گر نہیں ہے تو دین و دھرم نہیں
اللہ کے سوا کوئی حاجت روا نہیں
مانگے ہے غیر سے جو وہ مشرک سے کم نہیں
در در پہ جا کے سر کو جھکاتا ہے اپنے تو
اللہ کے حضور ہی سر تیرا خم نہیں

12
(جناب سلیم حسرت کیلئے عید پر کہی گئی غزل)
آئی ہے عید عید پہ خوشیاں اچھال رکھ
خود کو نہ یومِ عید تو آشفتہ حال رکھ
بزمِ سخن میں جانے سے پہلے تو سوچ لے
دینی ہے ایک طفل کو عیدی خیال رکھ
مل جائے گی کسی سے بھی عیدی نہ فکر کر

7
آئی ہے عید ، عید پہ خود کو نہال رکھ
خود کو نہ یومِ عید تو آشفتہ حال رکھ
آ کر گلے لگا لے تجھے عید پر سحاب
دلبر تو اپنے پیار میں ایسا کمال رکھ

14
رمضان کے کھلیں گے جو زندان عید پر
آزاد ہر سو گھومیں گے شیطان عید پر
بکرے کے ریٹ سن کے ہیں حیران عید پر
کرنی پڑے گی مرغی ہی قربان عید پر
ملتا نہیں ہے سو سے کم ازار بند بھی
مہنگائی کا ہے اس قدر طوفان عید پر

24
اک غلط فہمی تھی بڑھ کر بد گمانی ہو گئی
بات بگڑی اس قدر مشکل بنانی ہوگئی
اپنی جب مشہور چاہت کی کہانی ہو گئی
کوچہءِ لیلی میں مشکل جاں بچانی ہو گئی
سنگ کھا کر لوٹتے ہیں ان کی گلیوں سے سدا
قیس مجنوں کی سی اپنی زندگانی ہو گئی

11
آئینہ دیکھ کے بولی کہ پری ہو جیسے
میں نے  بولا کہ کہو گائے پلی ہو جیسے
بس اسی بات پہ سالوں نے کچھ ایسے پیٹا
پٹتے پٹتے ہوئے اک عمر کٹی ہو جیسے
مار کھاتے ہوئے کچھ ایسا گماں ہوتا تھا
وہ کھڑی ہنستی ہوئی دیکھ رہی ہو جیسے

21
سرکار کیوں کرے گی کرم ہم عوام ہیں
توڑے گی  ہم پہ ظلم و ستم ہم عوام ہیں
قلب و جگر کا ہوگا لہو ہوگی چشم نم
سہنے ہیں ہم نے درد و الم ہم عوام ہیں
سرکار اپنے ذاتی مفادات کے لئے
ہم پر چلے گی رکھ کے قدم ہم عوام ہیں

19
دوستو ہرگز کبھی مت تم نکلنا رات کو
یاد رکھنا لازمی  تم دوست کی اس بات کو
ایک شب بیگم نے میری حکم جاری کر دیا
لاؤں اس کے واسطے میں  ٹھنڈے مشروبات کو
ناگواری سے سکوٹر  پر گیا بازار کو
راستے میں پڑ گئے چھ سات ڈاکو رات کو

17
مرا بچپن سے ہی تھا اک پسندیدہ کلر کالا
کہاں ہوگا کوئی اس رنگ کو یوں چاہنے والا
صلہ اس رنگ سے چاہت کا یوں لائف میں ہے پایا
خدا نے خوب بھر کے ہم پہ کالا رنگ ہے ڈالا
ملی وائف بھی کالی اور کالے اسکے گھر والے
ہیں کالے ڈارک کالے ساس سسر سالی اور سالا

18
ہاتھوں پہ کس کے نام کی مہندی لگی ابھی
دلہن کے لب پہ آئی ہے کھل کر ہنسی ابھی
بیٹی کی گھر سے ہو رہی ہے رخصتی ابھی
بابل کے گھر میں ہو گئی بے رونقی ابھی
اک چاند چہرہ آیا ہے میرے خیال میں
کمرے میں بھر گئی ہے مرے چاندنی ابھی

19
دشمن بھی ڈر کے کرتے نہیں دشمنی ابھی
اک آستیں کے سانپ سے ہے دوستی ابھی
دیکھے ہیں منہ سے  پھول ہی جھڑتے ہوئے سدا
میری زباں کی دیکھ تو آشفتگی ابھی
زہریلا ہے تو سب کو غزل میں بتاؤں گا
بچ کر رہیں گے زہر سے تیرے سبھی ابھی

16
مرا    اونچا   ستارا    تھا    مری    ماں  کی  دعاؤں  سے
    بچھڑ  کر  ماں  سے ، الجھا  ہوں  جہاں کی سب بلاؤں  سے
    دھری رہتی ہے خوش بختی سدا  قدموں کی چوکھٹ  پر
    بندھے  ہوں  بخت  کے   دھاگے  اگر  ماں  کی  دعاؤں  سے

9
کٹی ہے عمر تنہائی میں تنہا ہی رہیں گے ہم
غمِ جاناں غمِ دوراں کو تنہا ہی سہیں گے ہم
چھپا کر غم شبِ تنہائی میں آنکھیں بگھولیں گے
ہنسی لب پر سجائے دن میں اشکوں کو پئیں گے ہم
نہ پہلے تھا گلہ کوئی نہ اب کوئی شکایت ہے
کسی سے کچھ نہیں کہنا کسی سے کیا کہیں گے ہم

12
ملتی نہیں وفا کبھی حسن و شباب سے
دریا کبھی رواں نہیں ہوتے سراب سے
دھو کا فریب دیتے ہیں چہرے کتاب سے
بچ کر جناب رہیے گا ان کے عتاب سے
خواب و خیال یار میں رہنا نہ رات دن
پیٹو گے اپنے گال جو جاگو گے خواب سے

14
انسانیت نہیں ہے تو انسان کیا ہوا
گل ہی نہیں جہاں وہ گلستان کیا ہوا
دن رات ایک فکر ہے انسان کو فقط
کتنا ہوا ہے فائدہ نقصان کیا ہوا
محفل میں دیکھ کے مجھے اس نے بھری جو آہ
پوچھا سبھی نے جاکے، مری جان کیا ہوا؟

9
دیار دل میں بسا بس خیال ہے اُس کا
فراق میں بھی خیالِ وصال ہے اُس کا
وہ فیصلہ جو بچھڑنے کا تھا کیا اُس نے
میں جانتا ہوں اُسے اب ملال ہے اُس کا
خیال تک بھی جسے میرا اب نہیں آتا
خیال کو بھی مرے بس خیال ہے اس کا

13
گل و شبنم مہ و انجم سے بڑھ کر ہے شباب اُن پر
غزل کافی نہیں ،لکھیں گے ہم پوری کتاب اُن پر
خبر تھی اُن کے ہاتھوں سے کھلونا دل کا ٹوٹے گا
نجانے مر مٹا کیسے دلِ خانہ خراب اُن پر

15
مقدر میں اگر ہوتا تُو میرا ہمسفر ہوتا
سفر ہوتا محبت کا مسرت سے بسر ہوتا
جو میرے پاس فرقت میں رفو کا اک ہنر ہوتا
دلِ صد چاک لے کر میں کبھی کیوں دربدر ہوتا
مرے دل کے نہاں خانوں سے تیرا گر گزر ہوتا
کبھی پھر دور تُو دلبر نہ مجھ سے عمر بھر ہوتا

18
جب بھی ڈھلتی ہے شام منڈی میں
بھر نے لگتے ہیں جام منڈی میں
جانے کس نے بسایا شہر حسن
کیسے بہکا نظام منڈی میں
شہر کے نامور لٹیروں کا
رات بھر کا قیام منڈی میں

16
اس دلربا کے لب پہ ہے انکار بار بار
دن رات ہم بھی کرتے ہیں اظہار بار بار
دیکھا ہے جب سے اس کو مرا دل ہے بے قرار
اُٹھتی ہے دل میں حسرتِ دیدار بار بار ہے
توڑا ہے عہدِ وصل کو اس نے ہزار بار
ہستے ہیں میرے حال پہ اغیار بار بار

2
24
میری سانسوں میں
اب بھی تیرے سانسوں کی
خوشبو باقی ہے

10
پتے گرتے ہیں
تیرے بھولے وعدے کی
یادیں لاتے ہیں

9
دریا صامت ہے
چپ کی چادر اوڑھے ہے
چندا تکتا ہے

8
تیری ادائے ناز میں الفت کا رنگ ہے
کھو جاوں تیرے رنگ میں دل میں امنگ ہے
بارش میں بھیگتا حسیں مرمر سا انگ ہے
قوس قزح کا تجھ میں رچا رنگ رنگ ہے
میں آئینہ ہوں اور نہ دلبر ہی سنگ ہے
پھر بھی ہمارے درمیاں مدت سے جنگ ہے

12
ہم کیسے خوش ہوں؟
خوں سستا ہو پانی سے
انساں مرتے ہوں

7
ہم مل جائیں گے
جیون کے باغیچے میں
گل کھل جائیں گے

10
غم ہجراں کے زنداں سے۔۔۔
مجھے اک گیت لکھنا ہے
ملن کی آخری شب پر
کہ جس کو گنگناؤں تو
دلِ مضطر بہل جائے
غمِ ہجراں کے زنداں سے

7
ہم جنوں زاد گھر بنا لیں گے
اک پری ہمسفر بنا لیں گے
دل کو مشعل اگر بنا لیں گے
تیرگی کو سحر بنا لیں گے
تو فصیلیں بھلے بنا دل میں
ہم وہیں بام و در بنا لیں گے

16
اگر ستم ہے تمہاری عادت ، تو اپنا برہم مزاج ہو گا
ہوا نہ تھا جو کبھی بھی پہلے سنو ستمگر وہ آج ہوگا
خبر کہاں تھی وہ شیریں لب اتنا بد زباں بد مزاج ہو گا
گماں نہیں تھا یوں قلب نازک کا کرچی کرچی زجاج ہو گا
تری جفاؤں کے شاخسانے زباں پہ سب کی مچل رہے ہیں
جو ہم نے اپنی زبان کھولی تو روز و شب احتجاج ہوگا

10
اُٹھاؤ رُخ سے حجاب جاناں گلاب رُخ کی میں دید کر لوں
قریب آکر ، نظر ملا کر ، گلے لگا لو میں عید کر لوں
تمہارے شیریں لبوں سے ساقی شرابی لذت کشید کر لوں
جو تجھ کو چھو کر نشہ ہوا ہے ، اضافہ اس میں مزید کر لوں
جفائیں کب تک کرے گے مجھ سے ملے گا کب تک رقیب سے یوں
بٹھا کے دونوں کو روبرو ، اُن سے حتمی گفت و شنید کر لوں

8
ہمیں عشق میں ہوش جاں کا نہ تن کا
تصور فقط اس حسیں گلبدن کا
چمن میں قدم رکھتے ہی اس حسیں پر
فدا ہو گیا ہر شجر گل چمن کا
بہاروں کی ملکہ سراپا تمہارا
گلابوں کی خوشبو اُجالا کرن کا

6
رب کو دل میں جو ہیں مکیں رکھتے
رب کی قدرت پہ ہیں یقیں رکھتے
غیر کے در کو چومنے والو
رب کے در پر کبھی جبیں رکھتے
کیسے رکھو گے دل میں تم رب کو
کتنے بت بھی ہو تم وہیں رکھتے

13
(ڈاکٹر سید سجاد صاحب کی وطن واپسی کی الوداعی تقریب پر کچھ اشعار)
الوداع اے سفیرِسخن الوداع
اے مرے گوہرِ علم و فن الوداع
آ گئی جب یہ رخصت کی شام آگئی
کہہ گئی روشنی کی کرن الوداع
اس جدائی پہ غمگین احباب ہیں

10
قائدعظیم - محمد علی جناح
عظیم قائد
عظیم رہبر
تو مرد آہن وفا کا پیکر
سراپا جرات سراپا عظمت
تو مثل سورج اُبھر کے آیا

13
خود کو آشفتہ سر بنا بیٹھے
زندگی کو کھنڈر بنا بیٹھے
کوئی رکتا نہیں مکیں دل میں
دل کو آسیب گھر بنا بیٹھے

12
آیا نہ تو نظر مجھے اچھا نہیں لگا
بھٹکا میں در بدر مجھے اچھا نہیں لگا
کمخاب کا بھی لمس مجھے کھردرا لگا
چھو کر تجھے ،گہر مجھے اچھا نہیں لگا
انجم شہاب ماند لگے تیرے سامنے
دیکھا تجھے ، قمر مجھے اچھا نہیں لگا

11
( ندیم رفعت خان اور لالی ندیم کے بیٹے آدم ندیم خان اور جاوید رفعت خان کی بیٹی سارہ خان کی
شادی خانه آبادی کے دعوت نامہ کا جواب )
19 جولائی 2016
**** جواب دعوت نامه ****
ہمیں دی ندیم اور لالی نے عزت
کہ بھیجی ہے بیٹے کی شادی کی دعوت

18
حسین اِبنِ زھرا نے باطل سے لڑ کر
بٹھا دی ہے مسلم کی دھاک اس جہاں پر

10
( بزم یاران سخن کے زیر اہتمام منعقد مشاعرے پر خراج تحسین )
سجی ہے "بزمِ یارانِ سخن" یارو  بہت عمدہ
بہاروں نے ہے مہکایا چمن یارو بہت عمدہ
ضیاءرحمن صدّیقی ہیں ناظم بزمِ یاراں کے
نظامت سے رکھیں سب کو مگن یارو بہت عمدہ
ملایا بزمِ یاراں نے سبھی شعراءکو محفل میں

14
جب جدا ہم تم ہوئے تھے موسمِ دل زرد تھا
آنکھوں میں تھی غم کی رم جھم جاں کا سورج سرد تھا
کچھ برس پہلے تلک یاں ہر کوئی ہمدرد تھا
ایک دوجے کے لئے سب کے دلوں میں درد تھا
جب بساطِ زندگی پر وقت نے بازی چلی
مات اُس نے دی مجھے جو میرے گھر کا فرد تھا

12
ملا کیا ہمیں دل سے دل کو بدل کر
جدا ہو گئے ساتھ کچھ دیر چل کر
تھے محتاط لیکن اُسے دیکھتے ہی
گیا دل یہ ہاتھوں سے اپنے نکل کر
ترے حسن کا جب تصور کیا ہے
غزل دل کے کاغذ پہ اتری مچل کر

9
( جشن صد سالہ کے موقع پر جناب ندیم کی زمین میں غزل کا خراج تحسین
احمد ندیم قاسمی
" سوچتا ہوں میری مٹی کہاں اڑتی ہوگی
اک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے" )
دل میں محفوظ ندیم آئینہ خانے تیرے
سب کو محبوب ہیں یادوں کے خزانے تیرے

10
خدارا بیچنا نہ ووٹ نیلے پیلے نوٹ سے
جو خیرخواہِ ملک ہو اسی کو چننا ووٹ سے

7
سنگ کی زد پہ سہی آئینہ خانے میرے
ہرگز آسان نہیں عکس مٹانے میرے
مجھ سے ملتے ہی نہیں یار پرانے میرے
کیا اُنھیں بھول گئے سارے ٹھکانے میرے
کب تلک سہتا گرانی کے میں چابک تن کر
بوجھ غربت کا بڑھا جھک گئے شانے میرے

7
سنو گے تو گھلے گی شیرنیی سی اک سماعت میں
جو بولو گے تو منہ میٹھا کرے گی اردو کی بولی

7
ہمیں انساں بنانا تھا تو مذہب کی ضرورت تھی
جدا مذہب سے ہو انساں تو ہے حیوان سے بد تر

6
نظم - چلو خود کو بدلتے ہیں
نیا پھر سال آیا ہے
کیلنڈر پھر سے بدلا ہے
کیلنڈر تو بدلتا ہے
مگر کیا ہم نے سوچا ہے
کبھی خود کو بھی بدلیں گے

7
اسےمنزل کا اپنی راستہ سمجھے غلط سمجھے
سفینے کا اسے ہم نا خدا سمجھے غلط سمجھے
اسی رہزن کے ہاتھوں لٹ گیا رختِ سفر اپنا
جسے راہِ سفر کا رہنما سمجھے غلط سمجھے
ملائم ریشمی کالی لٹیں تھیں ریشمی پھندہ
جنہیں ساون کی ہم کالی گھٹا سمجھے غلط سمجھے

8
نہیں تنہا نہیں ہوں میں
تمہارے سحر کے دھاگوں نے
میرے جسم و جاں کو باندھ رکھا ہے
حسیں یادوں کا شیریں لمس
میری روح کو چھو کر
مری آنکھوں سے بہتا ہے

13
اک رشکِ حور حسن پہ مغرور ہے بہت
اک دل کہ اس کے عشق سے معمور ہے بہت
کیسا دیارِ عشق کا  دستور ہو گیا
ہر رانجھا اپنی ہیر سے ہی  دور ہے بہت
لیلی ہے ہجرِ قیس  میں  غمگین اشکبار
مجنوں فراقٍ لیلی میں رنجور ہے بہت

11
اک رشکِ حور حسن پہ مغرور ہے سحاب
اک دل کہ اس کے عشق سے معمور ہے سحاب
کیسا دیارِ عشق کا  دستور ہے سحاب
ہر رانجھا اپنی ہیر سے ہی  دور ہے سحاب
لیلی ہے ہجرِ قیس  میں  غمگین اشکبار
مجنوں فراقٍ لیلی میں رنجور ہے سحاب

7
کبھی ہم تم ملا کرتے
یونہی پہروں پھرا کرتے
کبھی تم کچھ کہا کرتے
کبھی ہم کچھ سنا کرتے
کبھی خاموش جو رہتے
تری آنکھیں پڑھا کرتے

21
اب یہ کہتے ہو تم سے محبت نہیں
جب کوئی اور جینے کی صورت نہیں
اب ترا ہجر برداشت کیسے کریں
ہجر سے بڑھ کے کوئی قیامت نہیں
سنگدل تو نے مارا ہے سنگِ جفا
آئینہ میرے دل کا سلامت نہیں

12
محبت کی کٹھن راہوں پہ ہم بھی چل کے دیکھیں گے
وفا اور سچ کے سانچے میں مکمل ڈھل کے دیکھیں گے
بہت ہے سنگدل دلبر کرے گا ظلم ہی ہم پر
کرم دیکھیں گے بس کچھ پل ستم پل پل کے دیکھیں گے
نجانے لطف کیا ملتا ہے پروانوں کو جل جل کر
کسی شمعِ فروزاں سے کبھی ہم جل کے دیکھیں گے

10
لو مزاروں کے چراغوں سے لگائے ہوئے ہیں
پستئ شرک میں ہم خود کو گرائے ہوئے ہیں
سجدہ کرتے نہیں اللہ کے گھر پر جا کر
سر کو دربار پہ مردے کی جھکائے ہوئے ہیں
چھوڑ بیٹھے ہیں محمد کی شریعت  کو حیف
بس رضا خانی شریعت میں سمائے ہوئے ہیں

0
10
لہو بن کر رگوں میں تو رواں ہے
زمیں ہوں میں تو میرا آسماں ہے
نہاں رکھنا نہیں ممکن  جہاں سے
محبت اپنی آنکھوں سے عیاں ہے
پرستش سے ہمیں روکو نہ واعظ
وہ بت سیمیں بدن غنچہ دہاں ہے

13
محمد کا جب ہم جنم دیکھتے ہیں
تو کعبے میں گرتے صَنم دیکھتے ہیں
محمد نے جب دعوتِ دینِ حق دی
تو باطل کا جھکتا عَلَم دیکھتے ہیں
محمد نے تفریقِ انساں مٹائی
عرب میں عجم محترم دیکھتے ہیں

9
مجھے منڈی میں یارو بھا گیا بکرا
پہنچ کر گھر سبھی کچھ کھا گیا بکرا
مرے ہمسائے کی بکری کو دیکھا جب
ہلا کر دم ذرا شرما گیا بکرا
نجانے کب سے تنہا تھا وہ بیچارا
ملی بکری محبت پا گیا بکرا

14
کسی خاتون نے محفل میں ہم سے آکے یہ پوچھا
بہت خاموش رہتے ہو ، تمہیں ہستے نہیں دیکھا
کہا ، تمباکو کھانے سے ہوئے ہیں دانت بوسیدہ
کھلے گا بھید ہسنے سے سو ہم رہتے ہیں سنجیدہ

12
چلے گی نہ ہٹی ادھاری بہت ہے
بنا ایک ویگن سواری بہت ہے
جو محفل میں خاتوں کو کہہ بیٹھا آنٹی
لگی آ کے سینڈل کراری بہت ہے
محبت کے گل روز کھلتے ہیں لاکھوں
بڑی میرے دل کی کیاری بہت ہے

11
اک جفا کار کو دلدار سمجھ بیٹھے تھے
دشمنِ جاں تھا جسے یار سمجھ بیٹھے تھے
جس ستمگر نے مجھے اپنا نہیں سمجھا تھا
اس کو میرا سبھی اغیار سمجھ بیٹھے تھے
ہجر کی رات کٹی چاند کو تکتے تکتے
چاند کو یار کا رخسار سمجھ بیٹھے تھے

14
لب پہ مے کا ا یاغ رہتا ہے
ہوش میں کب دماغ رہتا ہے
عشق دل میں سما گیا جب سے
دل میں روشن چراغ رہتا ہے
زخم خنجر کا یا زبا ں کا ہو
بھر بھی جائے تو داغ رہتا ہے

16
دامنِ دل کے رفو کا جب ہنر بھی آئے گا
زیست کی مشکل ڈگر سے تو گزر بھی آئے گا
ابن آدم مت سمجھ آسان جنت کا سفر
دیکھنا رستے میں ممنوعہ شجر بھی آےٴ گا
تُو مقدر کے لکھے پر دل سے راضی ہوگا جب
تب تبسم تیرے ہونٹوں پر نظر بھی آےٴ گا

12
جب تلک سانسوں کو بوئے دلربا ملتی رہی
چارہ گر سے قلبِ مضطر کو دوا ملتی رہی
جس کسی سے بھی وفا کی بس جفا ملتی رہی
عمر بھر جرمِ محبت کی سزا ملتی رہی
ہم گزرتے ہیں وہاں سے تھام کر قلب و جگر
جس گلی جس موڑ پر وہ مہ لقا ملتی رہی

10
ہم خانماں خراب سرابوں میں کھو گئے
راہِ جنوں پہ چل کے خرابوں میں کھو گئے
کچھ پھول سج گئے ہیں محبت کی سیج پر
مرجھا کے چند پھول کتابوں میں کھو گئے
پیاسی ہے گر زمین تو پیاسا ہے آسماں
بارش کے قطرے تشنہ سحابوں میں کھو گئے

11
پکڑ کر انگلی مائیں اپنے بچوں کو چلاتی ہیں
کٹھن جیون کی راہوں پر انہیں بڑھنا سکھاتی ہیں
اگر ہو تیز بارش دھول مٹی یا تمازت ہو
چھپا کر اپنے آنچل میں انہیں سب سے بچاتی ہیں
بہت مصروف رہتی ہیں یہ مائیں گھر گھرستی میں
مگر بچوں کو محنت سے سبق اُن کا پڑھاتی ہیں

10
جشن انصر کے انعقاد پر غزل نذر سید انصر
03 مئی 2025
تہنیت ہے تہنیت ہے پیشٍ خدمت سیّد انصر
جشنِ انصر ادبی فورم کی عقيدت سیّد انصر
جشنِ انصر کے لئے ہے منتظر ہر خاص و عام
ہر طرف ہے آپ کا ہی نام شہرت سیّد انصر

15
آپ کی ' مشتاق' شہرت اب ہے سرحد پار بھی
آپ کی توقیر و عزت اب ہے سرحد پار بھی
ہو گئے شامل نصابوں میں  سخن مشتاق کے
پہنچی   علمی قابلیت اب ہے سرحد پار بھی
منفرد  طرزِ  سخن  مشتاق کی پہچان ہے
پھیلی خوشبوئے لیاقت اب ہے سرحد پار بھی

9
اس کی ناراضی بجا میری خطا ہے تو سہی
مان جانا بھی مگر اس کی  ادا ہے تو سہی
چھوڑ کر جاتے ہوئے اس نے پلٹ کر دیکھا
اس جنا کار میں تھوڑی سی  وفا ہے تو سہی
تو نہیں وصل پہ مائل تو نہیں میں بھی بضد
تو تصوّر میں مرے جلوہ نما ہے تو سہی

30
عشق ہو جائے تو اظہار کریں یا نہ کریں
جذبہءِ شوق کو بیدار کریں یا نہ کریں
حال دل گوش گزار ان کے میں کر دوں لیکن
سوچتا ہوں کہ وہ اقرار کریں یا نہ کریں
خوب صورت ہیں وہ ہر روپ میں ناز و ادا میں
زینتِ گیسو و رخسار کریں یا نہ کریں

25
روح سے کر  کلام  دھیرے  سے
کر   خودی   بے  نیام  دھیرے  سے
دل کی خواہش اگر  بڑھے حد  سے
کھینچ    لینا   زمام   دھیرے  سے
حسن  سیرت  سے  کر  لیا  اُس نے
میرے  دل  میں  مقام دھیرے  سے

14
دل ، دلبروں  کے  عید   پہ  سفاک   ہو  گئے
عیدی  کے  واسطے  سبھی  بے باک ہو  گئے
عیدی سے عاشقوں کو پرکھنے کی ضد کریں
دلبر    ہمارے    عہد    کے    چالاک  ہو  گئے
عیدی کے واسطے ہیں لی میری تلاشیاں
جیبوں کو خالی دیکھ کے غم ناک ہو گئے

23
ملتی ہے اس کی ذات کو شمشیرِ آگہی
جس شخص کی کتاب سے رہتی ہے دوستی
اہلِ جنوں ، خرد سے جو کرتے ہیں بے رخی
دشتِ جنوں میں اُن کی بھٹکتی ہے زندگی
رنج و الم چھپا کے ہنسی بانٹتی رہی
ماں کے وجود سے تھی مرے گھر میں ہر خوشی

13
حیات تیری طلب میں جاناں نجانے کب سے بھٹک رہی تھی
دیار ہستی میں روح میری تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی
پھر ایک دن تو یوں روبرو تھی کہ چاندنی سی دمک رہی تھی
شباب تیرا مچل رہا تھا ، تو کلیوں جیسی چٹک رہی تھی
نشیلی آنکھوں کے ساغروں سے شرابی مستی چھلک رہی تھی
قصور میرا نہیں تھا ہرگز نظر جو میری بہک رہی تھی

10
محبت کی جو مٹی سے بنے انسان ہوتے ہیں
وفا کے جرم میں اکثر پسِ زندان ہوتے ہیں
بہت خاموش رہتے ہیں ، جفا کے غم کو سہتے ہیں
کسی ویران رستے کی طرح سنسان ہوتے ہیں
بنا سوچے بنا سمجھے جہاں دل دے دیا جائے
وہاں جور و جفا کے بھی بہت امکان ہوتے ہیں

17
تری یاد میں دن بسر ہو رہا ہے
ترا ذکر شام و سحر ہو رہا ہے
مرا دل محبت پہ مائل ہوا ہے
ترے حسن کا کچھ اثر ہو رہا ہے
تری جھیل آنکھوں میں ڈوبا ہے کیا دل
شکارا کوئی دربدر ہو رہا ہے

13
بلند اقبال کا رتبہ ، بصیرت اس کی شاہانہ
کمال انداز آفاقی ، طبیعت تھی فقیرانہ
سراپا عجز تھا ، اس کی جبیں پہ خاکساری تھی
محبت معرفت اور عشق و مستی میں جداگانہ
رگِ جاں میں اتر تے سب وہ نغمے اس کے آفاقی
سخن پر سوز وہ اسکا ، وہ اندازِ نصیحانہ

11
محبت ہی تو کی ہے بس کِیا کیا ہے ، خطا کیا ہے
میں دل لایا ہوں دل دے کر جزا کیا ہے سزا کیا ہے
محبت کے سفر میں لٹ گیا رختِ سفر کیا کیا
خدارا ہم سے نہ پوچھو لٹا کیا ہے بچا کیا ہے
خطائے بیوفائی پر اُسے نادم نہیں دیکھا
ستمگر کب سمجھتا ہے وفا کیا ہے جفا کیا ہے ہے

14
کہا اس نے محبت اک اذیت ہے
کہا میں نے محبت اک عبادت ہے
کہا اس نے مجھے تم چاہتے ہو نا؟
کہا میں نے تو سانسوں کی ضرورت ہے
کہا اس نے محبت میں رقابت ہے
کہا میں نے یہی سب کو شکایت ہے

12
عاشق کے دل میں عشق جگاتی ہے عاشقی
معشوق کو بھی روگ لگاتی ہے عاشقی
صحرا میں خاکِ قیس اُڑاتی ہے عاشقی
رانجھے کو بن کا جوگی بناتی ہے عاشقی
کٹتی ہے عمر عاشقوں کی رقصِ ہجر میں
دیوانگی کا ناچ نچاتی ہے عاشقی

15
شبِ فرقت نظر دلبر تری تصویر سے الجھے
کماں ابرو سیہ مژگاں کے قاتل تیر سے الجھے
کبھی رخسار کے غازے کبھی ہونٹوں کی لالی سے
کبھی آنکھوں میں کاجل سے لکھی تحریر سے الجھے
کسی مرہم کسی شے سے کبھی گھاؤ نہیں بھرتا
جگر جب بھی جفائے یار کی شمشیر سے الجھے

13
تیری  جفا  کا غم ہے مگر اتنا غم نہیں
مر جائیں تیرے واسطے پاگل تو ہم نہیں
عشق و جنوں میں حوصلہ مجنوں سے کم نہیں
صحرا کی مشتِ خاک سے گھبراتے ہم نہیں
دستِ رقیب میں دیے اس نے بدن کے خم
چھو پائے ہم تو ریشمی زلفوں کے خم نہیں

14
جہاں لاگو نئی تہذیب کا فرمان ہو جائے
وہاں ایمان کا انسان میں فقدان ہو جائے
جہاں اُترے نئی تہذیب کا خنجر رگِ جاں میں
وہاں پر خاکی انساں آتشیں شیطان ہو جائے
جہاں مکر و ریا اور جھوٹ کی دستار بندی ہو
وہاں سچ بولنے والا پسِ زندان ہو جائے

14
گھر پہ بھرتی جب حسیں اک  نوکرانی ہو گئی
گھر کے مالک پر بس اس کی حکمرانی ہو گئی
سوکھ کر کانٹا ہوا بیگم کی میں کھا کھا کے مار
تنگ  شادی کی کھلی اب  شیروانی ہو گئی
اس کے کپڑوں سے بنا سکتا ہوں میں تنبو قنات
پھول کر کپّا  مری موٹی زنانی ہو گئی

21
نہ دل میں انا ہے نہ کوئی حسد ہے
نہ فطرت میں بغض و عداوت نہ کد ہے
ہمیشہ سبھی کا بھلا ہی کیا ہے
بھلے نیک ہے یا بھلے کوئی بد ہے
کسی کی جو مشکل کو آسان کر دے
خدا اس کی مشکل میں کرتا مدد ہے

17
ان کے رخ پر حجاب رہتا ہے
جیسے مہ پر سحاب رہتا ہے
وصل کا جب سوال ہو ان سے
بس ''نہیں'' میں جواب رہتا ہے
پاس رہ کر بھی درمیاں اپنے
فاصلہ بے حساب رہتا ہے

21
دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا
ہاتھ دشمن سے جا ملایا تھا
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انہیں پلایا تھا
زخم کاری بہت لگا دل پر
تیر اپنوں نے اک چلایا تھا

19
ملاقات کا اس نے وعدہ کیا ہے
درِ لطف مجھ پر کشادہ کیا ہے
حجاب اس نے رخ پر جو آدھا کیا ہے
یوں حُسن و جمال اپنا زیادہ کیا ہے
چھپائے ہیں ساقی نے ساغر لبوں کے
مگر چشم سادہ کو بادہ کیا ہے

30
اگلا سفر اے خاکی بشر خاک سے پرے
منزل ہے کائنات کے افلاک سے پرے
باغات نہریں کوثر و حورٌ فی الخیام
انعام خلد کے سبھی ادراک سے پرے
راہِ نجات تیری فقط راہِ مستقیم
رنگینئ جہان کے پیچاک سے پرے

21
میٹھے دو لفظوں کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں
عشق میں خود کو گرفتار سمجھ لیتے ہیں
طائرِ عشق اسیری کو سمجھتے ہیں بہار
قفسِ عشق  کو گلزار سمجھ لیتے ہیں
قصئہِ عشق کے آغاز سے پہلے جاناں
آؤ اک دوجے کے کردار سمجھ لیتے ہیں

63