Circle Image

Laeeq Akbar Sahaab

@Laeeq

دل ، دلبروں  کے  عید   پہ  سفاک   ہو  گئے
عیدی  کے  واسطے  سبھی  بے باک ہو  گئے
عیدی سے عاشقوں کو پرکھنے کی ضد کریں
دلبر    ہمارے    عہد    کے    چالاک  ہو  گئے
عیدی کے واسطے ہیں لی میری تلاشیاں
جیبوں کو خالی دیکھ کے غم ناک ہو گئے

6
ملتی ہے اس کی ذات کو شمشیرِ آگہی
جس شخص کی کتاب سے رہتی ہے دوستی
اہلِ جنوں ، خرد سے جو کرتے ہیں بے رخی
دشتِ جنوں میں اُن کی بھٹکتی ہے زندگی
رنج و الم چھپا کے ہنسی بانٹتی رہی
ماں کے وجود سے تھی مرے گھر میں ہر خوشی

5
حیات تیری طلب میں جاناں نجانے کب سے بھٹک رہی تھی
دیار ہستی میں روح میری تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی
پھر ایک دن تو یوں روبرو تھی کہ چاندنی سی دمک رہی تھی
شباب تیرا مچل رہا تھا ، تو کلیوں جیسی چٹک رہی تھی
نشیلی آنکھوں کے ساغروں سے شرابی مستی چھلک رہی تھی
قصور میرا نہیں تھا ہرگز نظر جو میری بہک رہی تھی

2
محبت کی جو مٹی سے بنے انسان ہوتے ہیں
وفا کے جرم میں اکثر پسِ زندان ہوتے ہیں
بہت خاموش رہتے ہیں ، جفا کے غم کو سہتے ہیں
کسی ویران رستے کی طرح سنسان ہوتے ہیں
بنا سوچے بنا سمجھے جہاں دل دے دیا جائے
وہاں جور و جفا کے بھی بہت امکان ہوتے ہیں

4
تری یاد میں دن بسر ہو رہا ہے
ترا ذکر شام و سحر ہو رہا ہے
مرا دل محبت پہ مائل ہوا ہے
ترے حسن کا کچھ اثر ہو رہا ہے
تری جھیل آنکھوں میں ڈوبا ہے کیا دل
شکارا کوئی دربدر ہو رہا ہے

4
بلند اقبال کا رتبہ ، بصیرت اس کی شاہانہ
کمال انداز آفاقی ، طبیعت تھی فقیرانہ
سراپا عجز تھا ، اس کی جبیں پہ خاکساری تھی
محبت معرفت اور عشق و مستی میں جداگانہ
رگِ جاں میں اتر تے سب وہ نغمے اس کے آفاقی
سخن پر سوز وہ اسکا ، وہ اندازِ نصیحانہ

2
محبت ہی تو کی ہے بس کِیا کیا ہے ، خطا کیا ہے
میں دل لایا ہوں دل دے کر جزا کیا ہے سزا کیا ہے
محبت کے سفر میں لٹ گیا رختِ سفر کیا کیا
خدارا ہم سے نہ پوچھو لٹا کیا ہے بچا کیا ہے
خطائے بیوفائی پر اُسے نادم نہیں دیکھا
ستمگر کب سمجھتا ہے وفا کیا ہے جفا کیا ہے ہے

4
کہا اس نے محبت اک اذیت ہے
کہا میں نے محبت اک عبادت ہے
کہا اس نے مجھے تم چاہتے ہو نا؟
کہا میں نے تو سانسوں کی ضرورت ہے
کہا اس نے محبت میں رقابت ہے
کہا میں نے یہی سب کو شکایت ہے

4
عاشق کے دل میں عشق جگاتی ہے عاشقی
معشوق کو بھی روگ لگاتی ہے عاشقی
صحرا میں خاکِ قیس اُڑاتی ہے عاشقی
رانجھے کو بن کا جوگی بناتی ہے عاشقی
کٹتی ہے عمر عاشقوں کی رقصِ ہجر میں
دیوانگی کا ناچ نچاتی ہے عاشقی

7
شبِ فرقت نظر دلبر تری تصویر سے الجھے
کماں ابرو سیہ مژگاں کے قاتل تیر سے الجھے
کبھی رخسار کے غازے کبھی ہونٹوں کی لالی سے
کبھی آنکھوں میں کاجل سے لکھی تحریر سے الجھے
کسی مرہم کسی شے سے کبھی گھاؤ نہیں بھرتا
جگر جب بھی جفائے یار کی شمشیر سے الجھے

5
تیری  جفا  کا غم ہے مگر اتنا غم نہیں
مر جائیں تیرے واسطے پاگل تو ہم نہیں
عشق و جنوں میں حوصلہ مجنوں سے کم نہیں
صحرا کی مشتِ خاک سے گھبراتے ہم نہیں
دستِ رقیب میں دیے اس نے بدن کے خم
چھو پائے ہم تو ریشمی زلفوں کے خم نہیں

5
جہاں لاگو نئی تہذیب کا فرمان ہو جائے
وہاں ایمان کا انسان میں فقدان ہو جائے
جہاں اُترے نئی تہذیب کا خنجر رگِ جاں میں
وہاں پر خاکی انساں آتشیں شیطان ہو جائے
جہاں مکر و ریا اور جھوٹ کی دستار بندی ہو
وہاں سچ بولنے والا پسِ زندان ہو جائے

6
گھر پہ بھرتی جب حسیں اک  نوکرانی ہو گئی
گھر کے مالک پر بس اس کی حکمرانی ہو گئی
سوکھ کر کانٹا ہوا بیگم کی میں کھا کھا کے مار
تنگ  شادی کی کھلی اب  شیروانی ہو گئی
اس کے کپڑوں سے بنا سکتا ہوں میں تنبو قنات
پھول کر کپّا  مری موٹی زنانی ہو گئی

9
سنگ کی زد پہ سہی آئنہ خانے میرے
ہرگز آسان نہیں عکس مٹانے میرے
مجھ سے ملتے ہی نہیں یار پرانے میرے
کیا انہیں بھول گئے سارے ٹھکانے میرے
وصل کی شب جو کھلیں بند قَبا کی گرہیں
ہوش سب چھین لئے ہوش ربا نے میرے

8
ہم عشق کے سفر میں سرابوں میں کھو گئے
راہِ جنوں پہ چل کے خرابوں میں کھو گئے
کچھ پھول سج گئے ہیں محبت کی سیج پر
مرجھا کے چند پھول کتابوں میں کھو گئے
پیاسی ہے گر زمین تو پیاسا ہے آسماں
بارش کے قطرے تشنہ سحابوں میں کھو گئے

7
نہ دل میں انا ہے نہ کوئی حسد ہے
نہ فطرت میں بغض و عداوت نہ کد ہے
ہمیشہ سبھی کا بھلا ہی کیا ہے
بھلے نیک ہے یا بھلے کوئی بد ہے
کسی کی جو مشکل کو آسان کر دے
خدا اس کی مشکل میں کرتا مدد ہے

9
اک جفا کار کو دلدار سمجھ بیٹھے تھے
دشمنِ جاں تھا جسے یار سمجھ بیٹھے تھے
جس ستمگر نے مجھے اپنا نہیں سمجھا تھا
اس کو میرا سبھی اغیار سمجھ بیٹھے تھے
ہجر کی رات کٹی چاند کو تکتے تکتے
چاند کو یار کا رخسار سمجھ بیٹھے تھے

12
ان کے رخ پر حجاب رہتا ہے
جیسے مہ پر سحاب رہتا ہے
وصل کا جب سوال ہو ان سے
بس ''نہیں'' میں جواب رہتا ہے
پاس رہ کر بھی درمیاں اپنے
فاصلہ بے حساب رہتا ہے

14
دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا
ہاتھ دشمن سے جا ملایا تھا
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انہیں پلایا تھا
زخم کاری بہت لگا دل پر
تیر اپنوں نے اک چلایا تھا

11
ملاقات کا اس نے وعدہ کیا ہے
درِ لطف مجھ پر کشادہ کیا ہے
حجاب اس نے رخ پر جو آدھا کیا ہے
یوں حُسن و جمال اپنا زیادہ کیا ہے
چھپائے ہیں ساقی نے ساغر لبوں کے
مگر چشم سادہ کو بادہ کیا ہے

20
روح   سے   کر  کلام  دھیرے  سے
کر   خودی   بے  نیام  دھیرے  سے
دل کی خواہش اگر  بڑھے حد  سے
کھینچ    لینا   زمام   دھیرے  سے
حسنِ  سیرت  سے  کر  لیا  اُس نے
میرے  دل  میں  مقام دھیرے  سے

17
اگلا سفر اے خاکی بشر خاک سے پرے
منزل ہے کائنات کے افلاک سے پرے
باغات نہریں کوثر و حورٌ فی الخیام
انعام خلد کے سبھی ادراک سے پرے
راہِ نجات تیری فقط راہِ مستقیم
رنگینئ جہان کے پیچاک سے پرے

14
میٹھے دو لفظوں کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں
عشق میں خود کو گرفتار سمجھ لیتے ہیں
طائرِ عشق اسیری کو سمجھتے ہیں بہار
قفسِ عشق  کو گلزار سمجھ لیتے ہیں
قصئہِ عشق کے آغاز سے پہلے جاناں
آؤ اک دوجے کے کردار سمجھ لیتے ہیں

22