اگر ستم ہے تمہاری عادت ، تو اپنا برہم مزاج ہو گا
ہوا نہ تھا جو کبھی بھی پہلے سنو ستمگر وہ آج ہوگا
خبر کہاں تھی وہ شیریں لب اتنا بد زباں بد مزاج ہو گا
گماں نہیں تھا یوں قلب نازک کا کرچی کرچی زجاج ہو گا
تری جفاؤں کے شاخسانے زباں پہ سب کی مچل رہے ہیں
جو ہم نے اپنی زبان کھولی تو روز و شب احتجاج ہوگا
وہ جس کے مژگاں کے تیر میرے دل و جگر میں اتر رہے ہیں
اسی مسیحا کے شیریں لب سے دل و جگر کا علاج ہو گا
مرے وطن کے سبھی سخنور محبتوں کو جگا رہے ہیں
مجھے یقیں ہے وطن میں اک دن محبتوں کا ہی راج ہو گا
فراز ، محسن ، ندیم ، امجد مری صدی کے عظیم شاعر
کبھی تو ان کے بھی سنگ اسمِ سحاب کا اندراج ہوگا

10