اگر ستم ہے تمہاری عادت ، تو اپنا برہم مزاج ہو گا |
ہوا نہ تھا جو کبھی بھی پہلے سنو ستمگر وہ آج ہوگا |
خبر کہاں تھی وہ شیریں لب اتنا بد زباں بد مزاج ہو گا |
گماں نہیں تھا یوں قلب نازک کا کرچی کرچی زجاج ہو گا |
تری جفاؤں کے شاخسانے زباں پہ سب کی مچل رہے ہیں |
جو ہم نے اپنی زبان کھولی تو روز و شب احتجاج ہوگا |
وہ جس کے مژگاں کے تیر میرے دل و جگر میں اتر رہے ہیں |
اسی مسیحا کے شیریں لب سے دل و جگر کا علاج ہو گا |
مرے وطن کے سبھی سخنور محبتوں کو جگا رہے ہیں |
مجھے یقیں ہے وطن میں اک دن محبتوں کا ہی راج ہو گا |
فراز ، محسن ، ندیم ، امجد مری صدی کے عظیم شاعر |
کبھی تو ان کے بھی سنگ اسمِ سحاب کا اندراج ہوگا |
معلومات