جب بھی ڈھلتی ہے شام منڈی میں
بھر نے لگتے ہیں جام منڈی میں
جانے کس نے بسایا شہر حسن
کیسے بہکا نظام منڈی میں
شہر کے نامور لٹیروں کا
رات بھر کا قیام منڈی میں
محفلیں ہیں شراب نوشی کی
جسم بکتے ہیں عام منڈی میں
طبلہ سارنگی بانسری پر ہے
رقص کا اہتمام منڈی میں
شہر کے بگڑے میر زادے سب
آ لٹاتے ہیں دام منڈی میں
گھر کی عزت بھی بیچ دیتے ہیں
خواہشوں کے غلام منڈی میں
اپنے گھر کو اُجاڑ لیتے ہیں
اک عیاشی کے نام منڈی میں
حسن کی جب چمک پڑے مدھم
گرنے لگتے ہیں دام منڈی میں
موت ہے زندگی کے بدلے میں
شر کا سودا ہے عام منڈی میں
کیسے ناسور کی جراحت ہو
کون بدلے نظام منڈی میں
تیر گی ہے سحاب عالم میں
نور کیسے ہو عام منڈی میں

16