دیار دل میں بسا بس خیال ہے اُس کا
فراق میں بھی خیالِ وصال ہے اُس کا
وہ فیصلہ جو بچھڑنے کا تھا کیا اُس نے
میں جانتا ہوں اُسے اب ملال ہے اُس کا
خیال تک بھی جسے میرا اب نہیں آتا
خیال کو بھی مرے بس خیال ہے اس کا
بچھڑ کے اُس سے میں کیسے حیات کرتا ہوں
سبھی سے رہتا یہی اک سوال ہے اُس کا
بچھڑ کے اُس سے رہوں گا سحاب اُس کا ہی
نہ ہو سکوں گا کسی کا ، کمال ہے اُس کا

13