لب پہ مے کا ا یاغ رہتا ہے
ہوش میں کب دماغ رہتا ہے
عشق دل میں سما گیا جب سے
دل میں روشن چراغ رہتا ہے
زخم خنجر کا یا زبا ں کا ہو
بھر بھی جائے تو داغ رہتا ہے
الجھے رشتوں کی تلخ الجھن سے
الجھا الجھا دماغ رہتا ہے
جانے کس خاک سے بنا ہوں میں
مضطرب دل دماغ رہتا ہے
وصل کے جب سحاب مہکیں گل
دل مرا باغ باغ رہتا ہے

19