جب جدا ہم تم ہوئے تھے موسمِ دل زرد تھا
آنکھوں میں تھی غم کی رم جھم جاں کا سورج سرد تھا
کچھ برس پہلے تلک یاں ہر کوئی ہمدرد تھا
ایک دوجے کے لئے سب کے دلوں میں درد تھا
جب بساطِ زندگی پر وقت نے بازی چلی
مات اُس نے دی مجھے جو میرے گھر کا فرد تھا
شہرِ جاں کے بام و در اک شخص الٹ کر چل دیا
ہو نہ ہو وہ دشمنِ جاں کوئی دہشت گرد تھا
خاک و خوں میں ڈوب کر اپنا وطن حاصل ہوا
آبلہ پا تھے مگر پُر عزم ہر اک فرد تھا
چاه بيٹھا تھا جسے میں جان کر اک آئینہ
ہائے صد افسوس کہ وہ آئینے کی گرد تھا
عکسِ ہرجائی مٹا آئِینَہِ دل سے سحاب
وه ستم گر بے مروت بے وفا بے درد تھا

12