اس دلربا کے لب پہ ہے انکار بار بار
دن رات ہم بھی کرتے ہیں اظہار بار بار
دیکھا ہے جب سے اس کو مرا دل ہے بے قرار
اُٹھتی ہے دل میں حسرتِ دیدار بار بار ہے
توڑا ہے عہدِ وصل کو اس نے ہزار بار
ہستے ہیں میرے حال پہ اغیار بار بار
بخشے ہے عاصیوں کو خدا بے شمار بار
کرتے ہیں پھر گناہ گنہگار بار بار
جب چھوڑ دیں بزرگوں کو احباب رشتے دار
پڑھتے ہیں تنہا بیٹھ کے اخبار بار بار
راہِ وفا میں دل کو ہے درکار حوصلہ
ملتے قدم قدم پہ ہیں آزار بار بار
دشمن یا راہزن کا نہیں خوف یاں سحاب
یاں لوٹتے ہیں قافلہ سالار بار بار

2
24
عمدہ ہے

نوازش جناب

0