جہاں لاگو نئی تہذیب کا فرمان ہو جائے
وہاں ایمان کا انسان میں فقدان ہو جائے
جہاں اُترے نئی تہذیب کا خنجر رگِ جاں میں
وہاں پر خاکی انساں آتشیں شیطان ہو جائے
جہاں مکر و ریا اور جھوٹ کی دستار بندی ہو
وہاں سچ بولنے والا پسِ زندان ہو جائے
جہاں شرم و حیا کے ضابطے فرسودگی ٹھہریں
وہاں نیکی بدی کی ختم ہر پہچان ہو جائے
جہاں پر فرق مٹ جائے ہوس میں اور محبت میں
وہاں پاکیزہ چاہت کا بہت فقدان ہو جائے
بنامِ عشق لٹ جائے جہاں پر کاروانِ دل
وہاں رختِ دل و جاں کا بہت نقصان ہو جائے
جہاں کی عارضی لذت کی خاطر آج کا انساں
ابد کی نعمتوں سے ہائے کیوں انجان ہو جائے
سحاب اب تو جہانِ بے اماں سے کوچ ہی کر جا
کہیں ایسا نہ ہو مردہ ترا ایمان ہو جائے-

6