محبت کی جو مٹی سے بنے انسان ہوتے ہیں
وفا کے جرم میں اکثر پسِ زندان ہوتے ہیں
بہت خاموش رہتے ہیں ، جفا کے غم کو سہتے ہیں
کسی ویران رستے کی طرح سنسان ہوتے ہیں
بنا سوچے بنا سمجھے جہاں دل دے دیا جائے
وہاں جور و جفا کے بھی بہت امکان ہوتے ہیں
سمجھتے ہیں حسینوں کو وفا صورت ، وفا سیرت
یہ عاشق لوگ بھی کیسے عجب نادان ہوتے ہیں
اگر دل کے سمندر میں ہو مد و جزر کی شورش
تو آنکھوں کے نگر میں بھی بہت طوفان ہوتے ہیں
گرا دیتی ہیں ان کو آندھیاں یک لخت دھرتی پر
جڑوں سے جو شجر بھی کھو کھلے بے جان ہوتے ہیں
ہزاروں خواہشوں کے ہم محل تعمیر کرتے ہیں
کہاں پورے بھلا دل کے سبھی ارمان ہوتے ہیں
سحاب اپنا تعلق سوچ کر تم توڑنا ان سے
یہ بندھن توڑنے اتنے کہاں آسان ہوتے ہیں

4