میٹھے دو لفظوں کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں
عشق میں خود کو گرفتار سمجھ لیتے ہیں
طائرِ عشق اسیری کو سمجھتے ہیں بہار
قفسِ عشق  کو گلزار سمجھ لیتے ہیں
قصئہِ عشق کے آغاز سے پہلے جاناں
آؤ اک دوجے کے کردار سمجھ لیتے ہیں
ہیر رانجھے کی طرح ہم بھی نہ دھوکا کھائیں
کون ہے سچا طرفدار سمجھ لیتے ہیں
شیریں فرہاد سا انجام نہ ہونے پائے
ٹوڑنا کیسے ہے  کہسار سمجھ لیتے ہیں
بیچ دریا میں نہیں کچے گھڑے پر مرنا
کیسے لگنا ہے ہمیں پار سمجھ لیتے ہیں
سنگباری کی سزا لیلی و مجنوں نے سہی
ہم نہ ٹھہریں گے سزا وار سمجھ لیتے ہیں
خود غرض لوگ جہاں عشق سے اکتا جائیں
عشق کو جان کا آزار سمجھ لیتے ہیں
اک فقط تو ہی نہ سمجھے غمِ تنہائیِ دل
تکیہ بستر درو دیوار سمجھ لیتے ہیں
رفعتِ فن انہیں قدموں میں پڑی ملتی ہے
اپنا کردار جو فنکار سمجھ لیتے ہیں
حسن کی دیوی کا بے وجہ مہرباں ہونا
کسی سادھو کا چمتکار سمجھ لیتے ہیں
شاعری میری کہاں ان کو سمجھ آئے گی
یہ بھلا کم ہے کہ  اخبار سمجھ لیتے ہیں
داد دیتے ہیں وہی کھل کے سخن ور کو سحاب
جو سخن فہمی سے اشعار سمجھ لیتے ہیں

22