اب یہ کہتے ہو تم سے محبت نہیں |
جب کوئی اور جینے کی صورت نہیں |
اب ترا ہجر برداشت کیسے کریں |
ہجر سے بڑھ کے کوئی قیامت نہیں |
سنگدل تو نے مارا ہے سنگِ جفا |
آئینہ میرے دل کا سلامت نہیں |
مطلبی شخص تھا صاف کهہ کر گیا |
اب مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں |
ذکر اس کی جفاؤں کا ہر سمت ہے |
اس کی آنکھوں میں پھر بھی ندامت نہیں |
فرقتوں کی شبوں کا تسلسل بہت |
قربتوں کی شبییں کیوں بکثرت نہیں |
اب جوئے شیر لانا فسانہ ہوا |
آج کے کوہکن میں یہ ہمت نہیں |
اس کی فطرت میں دھوکا جفا جھوٹ ہے |
سچ وفا اور حیا اس کی عادت نہیں |
ہر گھڑی زہر ہی اب اگلتے ہیں لب |
ان کے بوسوں میں اب وہ حلاوت نہیں |
میں سحاب اس کو کیسے کہوں چاند سا |
اس قدر چاند تو خوبصورت نہیں |
معلومات