اب یہ کہتے ہو تم سے محبت نہیں
جب کوئی اور جینے کی صورت نہیں
اب ترا ہجر برداشت کیسے کریں
ہجر سے بڑھ کے کوئی قیامت نہیں
سنگدل تو نے مارا ہے سنگِ جفا
آئینہ میرے دل کا سلامت نہیں
مطلبی شخص تھا صاف کهہ کر گیا
اب مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں
ذکر اس کی جفاؤں کا ہر سمت ہے
اس کی آنکھوں میں پھر بھی ندامت نہیں
فرقتوں کی شبوں کا تسلسل بہت
قربتوں کی شبییں کیوں بکثرت نہیں
اب جوئے شیر لانا فسانہ ہوا
آج کے کوہکن میں یہ ہمت نہیں
اس کی فطرت میں دھوکا جفا جھوٹ ہے
سچ وفا اور حیا اس کی عادت نہیں
ہر گھڑی زہر ہی اب اگلتے ہیں لب
ان کے بوسوں میں اب وہ حلاوت نہیں
میں سحاب اس کو کیسے کہوں چاند سا
اس قدر چاند تو خوبصورت نہیں

12