جب تلک سانسوں کو بوئے دلربا ملتی رہی |
چارہ گر سے قلبِ مضطر کو دوا ملتی رہی |
جس کسی سے بھی وفا کی بس جفا ملتی رہی |
عمر بھر جرمِ محبت کی سزا ملتی رہی |
ہم گزرتے ہیں وہاں سے تھام کر قلب و جگر |
جس گلی جس موڑ پر وہ مہ لقا ملتی رہی |
کتنے ناداں تھے کہ اُس کی جستجو کرتے رہے |
جانے کس کس آشنا سے بیوفا ملتی رہی |
زندگی بھر ہر خوشی بس بوند بھر ملتی رہی |
ہر گھڑی رنج و الم بن کر قضا ملتی رہی |
ہم تڑپتے ہی رہے جس کی جھلک کے واسطے |
وہ عدو سے کھول کر بندِ قبا ملتی رہی |
عید کے دن بھی گلے ملتا نہیں دلبر ، سحاب |
بانہوں میں بھر بھر مجھے خلقِ خدا ملتی رہی |
معلومات