ہاتھوں پہ کس کے نام کی مہندی لگی ابھی
دلہن کے لب پہ آئی ہے کھل کر ہنسی ابھی
بیٹی کی گھر سے ہو رہی ہے رخصتی ابھی
بابل کے گھر میں ہو گئی بے رونقی ابھی
اک چاند چہرہ آیا ہے میرے خیال میں
کمرے میں بھر گئی ہے مرے چاندنی ابھی
ساغر لبوں کے دور نہ کرنا اے ہمنشیں
تھوڑی سی بھی بجھی نہیں تشنہ لبی ابھی
کیسے نہ میرے عشق میں مسحور تو رہے
سیکھی ہے میں نے سامری سے ساحری ابھی
گستاخیوں  کی  میں نے طلب کی  معافیاں
پھر بھی نہیں گئی ہے تری بے رُخی ابھی
تو نے ابھی سے تھام لیا دل جگر سحاب
کر حوصلہ کہ دور ہے اس  کی گلی ابھی

19