جلوے کچھ ہوش رُبا زیرِ قبا رہتے ہیں
ہم فقط صورت و سیرت پہ فدا رہتے ہیں
خوشیوں کے جگنو پکڑنے میں سدا رہتے ہیں
خود غرض لوگ بدستور خفا رہتے ہیں
توڑ کر دل کو وہ جب ہم سے خفا رہتے ہیں
کتنے ہنگامے دل و جاں میں بپا رہتے ہیں
شوقِ محبوب ہے ہم الجھے رہیں گرہوں سے
سختی سے باندھ کے وہ بندِ قبا رہتے ہیں
اب فقط مکرو ریا جوروجفا ہے ہر سو
اب کہاں لوگ جو پابندِ وفا رہتے ہیں
جیتے جی تجھ سے نہ بچھڑیں گے کبھی بھی جاناں
کیا کبھی گوشت سے ناخن بھی جدا رہتے ہیں
کیسے پھر سچا خدا تجھ کو ملے گا اے سحاب
سینکڑوں  دل میں ترے جھوٹے خدا رہتے ہیں

12