ملتی نہیں وفا کبھی حسن و شباب سے |
دریا کبھی رواں نہیں ہوتے سراب سے |
دھو کا فریب دیتے ہیں چہرے کتاب سے |
بچ کر جناب رہیے گا ان کے عتاب سے |
خواب و خیال یار میں رہنا نہ رات دن |
پیٹو گے اپنے گال جو جاگو گے خواب سے |
تلوار و تیرِ حسن و ادا ان کے تیز دھار |
کرتے ہیں دل پہ وار یہ زیرِ حجاب سے |
اک بار جو الجھ گئے زلفوں کے جال میں |
نکلو گے پھر نہ عمر بھر ان کے عذاب سے |
دنیا و آخرت کی رہے گی نہ ہوش پھر |
دگنا نشہ ہے شیریں لبوں میں شراب سے |
نوکِ جفا سے قلب و جگر کو کریں فگار |
ہوتے ہیں خار دار یہ چہرے گلاب سے |
پہلے یہ نازنین لبھائیں گے آپ کو |
دل بھر گیا تو بولیں گے، صاحب حساب سے |
بے قدر و بے وفا ہیں یہ ظالم ستم شعار |
بے حد خراب لوگ ہیں یہ ماہتاب سے |
مطلب پرست چھوڑ گیا دشتِ ہجرمیں |
کر کے کشید ابرِ محبت سحاب سے |
معلومات