اُٹھاؤ رُخ سے حجاب جاناں گلاب رُخ کی میں دید کر لوں |
قریب آکر ، نظر ملا کر ، گلے لگا لو میں عید کر لوں |
تمہارے شیریں لبوں سے ساقی شرابی لذت کشید کر لوں |
جو تجھ کو چھو کر نشہ ہوا ہے ، اضافہ اس میں مزید کر لوں |
جفائیں کب تک کرے گے مجھ سے ملے گا کب تک رقیب سے یوں |
بٹھا کے دونوں کو روبرو ، اُن سے حتمی گفت و شنید کر لوں |
ملن کا وعدہ ہوا پرانا ، رہوں گا کب تک میں منتظر یوں |
کہیں وہ ظالم ملے تو اس سے میں عہد و پیماں جدید کر لوں |
جدائی کیسے سہوں میں اس کی جو روٹھ بیٹھا خطائیں کر کے |
سحاب اُس کو منا لوں خود ہی ، یا خود کو اُس سے بعید کر لوں |
معلومات