آیا نہ تو نظر مجھے اچھا نہیں لگا
بھٹکا میں در بدر مجھے اچھا نہیں لگا
کمخاب کا بھی لمس مجھے کھردرا لگا
چھو کر تجھے ،گہر مجھے اچھا نہیں لگا
انجم شہاب ماند لگے تیرے سامنے
دیکھا تجھے ، قمر مجھے اچھا نہیں لگا
چاہا تجھے تو یوں کہ نہ چاہا کسی کو پھر
کوئی بھی عمر بھر مجھے اچھا نہیں لگا
آئینہ دل کا توڑ کا کہتا ہے سنگ دل
دل تیرا توڑ کر مجھے اچھا نہیں لگا
دیکھا جو اس کے در پہ رقیبوں کا اک ہجوم
پھر اس کے گھر کا در مجھے اچھا نہیں لگا
تجدیدِِ رسم و راہ پہ پھر سے ہے تُو بضد
تُو بے وفا مگر مجھے اچھا نہیں لگا
اگلا سفر ہو میرے خدا راحتوں بھرا
اس زیست کا سفر مجھے اچھا نہیں لگا
اس کا ہی ذکر بس تمہیں اچھا لگے سحاب
کہتے ہو تم مگر مجھے اچھا نہیں لگا

11