گھر پہ بھرتی جب حسیں اک نوکرانی ہو گئی |
گھر کے مالک پر بس اس کی حکمرانی ہو گئی |
سوکھ کر کانٹا ہوا بیگم کی میں کھا کھا کے مار |
تنگ شادی کی کھلی اب شیروانی ہو گئی |
اس کے کپڑوں سے بنا سکتا ہوں میں تنبو قنات |
پھول کر کپّا مری موٹی زنانی ہو گئی |
سوچتا ہوں دوسری کا پوچھ لوں بیگم سے میں |
پہلے والی شیروانی اب پرانی ہو گئی |
پھر نہیں رکتی جو پٹری سے اتر جائے کبھی |
اب زباں کی ریل کی دگنی روانی ہو گئی |
تاک کر بیگم نے ماری ٹانکے آئے سر پہ چار |
اس کو غم ہے چار ٹکڑے چائے دانی ہو گئی |
آج شب نہ ہو سکے گی پتے بازی دوستو |
کھا کے گھونسے 'سالوں' کے کچھ نا توانی ہو گئی |
پوچھتے ہو کیسی گزری سن لوغم کی داستاں |
دھو کے برتن، پا دبا کر زندگانی ہو گئی |
معلومات