بلند اقبال کا رتبہ ، بصیرت اس کی شاہانہ
کمال انداز آفاقی ، طبیعت تھی فقیرانہ
سراپا عجز تھا ، اس کی جبیں پہ خاکساری تھی
محبت معرفت اور عشق و مستی میں جداگانہ
رگِ جاں میں اتر تے سب وہ نغمے اس کے آفاقی
سخن پر سوز وہ اسکا ، وہ اندازِ نصیحانہ
بتایا نکتہءِ توحید کا جب فلسفہ اس نے
گرایا قلب و جاں میں جو بسا رکھا تھا بت خانہ
بلند افکار تھے اس کے چھکتی برق کی مانند
کہ راہی ظلمتِ شب میں نہ راہوں سے ہوں بیگانہ
خودی کا درس دیتی موتیوں سي شاعری اس کی
سراغِ زندگی دیتے وہ اشعارِ حکیمانہ
مرے اقبال تیری حکمت و عظمت کی خدمت میں
فقط اپنی غزل کا پیش کر سکتا ہوں نذرانہ
سحاب ، اقبال کا نعم البدل ملنا نہیں ممکن
کہاں ڈھونڈے پھرے ہو تم جہاں میں بن کے دیوانہ

2