حسن کی شمع شبِ وصل جلائی اس نے
برق جلووں کی مرے دل پہ گرائی اس نے
مہندی ہاتھوں پہ محبت کی رچائی اس نے
رنگینئِ حسن گلالوں سے بڑھائی اس نے
حسن مستور کی دے کر رو نمائی اس نے
بھر دیا دید کا کاسہ ءِ گدائی اس نے
وصل کی صبح جو اس شوخ نے لی انگڑائی
اک جنوں خیز قیامت تھی اٹھائی اس نے
میرے ہونٹوں پہ جو اظہارِ محبت آیا
میرے ہونٹوں پہ رکھی انگلی حنائی اس نے
چشمِ دلبر سے نظر ٹہری جو شیریں لب پر
پھر نظر چہرے سے میرے نہ ہٹائی اس نے
ڈھیروں باتوں میں تھی اک بات مسیحائی کی
ہونٹ کانوں کو جو مس کر کے بتائی اس نے
میں نے جب بولا مری چائے میں چینی کم ہے
اپنی انگلی مری چائے میں گھمائی اس نے
میری تصویر جو اک روز کتابوں میں ملی
چوم کر ہونٹوں سے سینے سے لگائی اس نے
بزم میں سب ہی ہوئے مدح سرا اس کے سحاب
جب محبت سے غزل تیری سنائی اس نے

0
3