دامنِ دل کے رفو کا جب ہنر بھی آئے گا
زیست کی مشکل ڈگر سے تو گزر بھی آئے گا
ابن آدم مت سمجھ آسان جنت کا سفر
دیکھنا رستے میں ممنوعہ شجر بھی آےٴ گا
تُو مقدر کے لکھے پر دل سے راضی ہوگا جب
تب تبسم تیرے ہونٹوں پر نظر بھی آےٴ گا
بھول کر سب کچھ چلے ہو دیس سے پردیس کو
رفتہ رفتہ یاد اپنا پیارا گھر بھی آئے گا
اپنوں کی یادیں لئے نکلے گا ہر دن آفتاب
ہجر کے سائے لئے شب میں قمر بھی آئے گا
بیٹھے بیٹھے اپنے گھر کے بام و در چوم آوٴ گے
یاد آنگن میں لگا بوڑھا شجر بھی آئے گا
ساتھ رہ کر ہی کھلیں گی خامیاں اور خوبیاں
جو رہا نظروں سے اوجھل وہ نظر بھی آئے گا
شعروں میں شامل کرو خونِ جگربھی کچھ سحاب
تب کہیں جا کر غزل میں کچھ اثر بھی آئے گا

12