محبت ہی تو کی ہے بس کِیا کیا ہے ، خطا کیا ہے
میں دل لایا ہوں دل دے کر جزا کیا ہے سزا کیا ہے
محبت کے سفر میں لٹ گیا رختِ سفر کیا کیا
خدارا ہم سے نہ پوچھو لٹا کیا ہے بچا کیا ہے
خطائے بیوفائی پر اُسے نادم نہیں دیکھا
ستمگر کب سمجھتا ہے وفا کیا ہے جفا کیا ہے ہے
بشر دنیا کے دھندوں میں ہے غافل فکرِ محشر سے
بروز حشر جانے کا بقا کیا ہے فنا کیا ہے
ادائے بے رخی ہم سے ، رقیبوں سے ملنساری
سمجھتا ہی نہیں ناداں بھلا کیا ہے بُرا کیا ہے
دیار دل ہوا ہے راکھ سوزِ عشق میں جل کر
کھنڈر میں چارہ گر دیکھو، بچا کیا ہے جلا کیا ہے
مریضِ عشق فرقت میں ہے مہماں چند گھڑیوں کا
طبیبِ عشق بتلاؤ دعا کیا ہے دوا کیا ہے
سحابِ وصل برسے گا یا بس فرقت میں جلنا ہے
مسیحائے محبت مدعا کیا ہے رضا کیا ہے

4