شبِ فرقت نظر دلبر تری تصویر سے الجھے |
کماں ابرو سیہ مژگاں کے قاتل تیر سے الجھے |
کبھی رخسار کے غازے کبھی ہونٹوں کی لالی سے |
کبھی آنکھوں میں کاجل سے لکھی تحریر سے الجھے |
کسی مرہم کسی شے سے کبھی گھاؤ نہیں بھرتا |
جگر جب بھی جفائے یار کی شمشیر سے الجھے |
نجانے کس طرح رنجش بدل جائے محبت میں |
کوئی رانجھا کہیں پر جب کسی بھی ہیر سے الجھے |
نگاهِ مردِ مومن سے بدل جاتی تھیں تقدیریں |
مگر اب مردِ ناداں کاتبِ تقدیر سے الجھے |
گھروں کے آنگنوں میں جب سکوں نا پید ہو جائے |
نکل کر آدمی گھر سے ہر اک رہگیر سے الجھے |
کبھی تو وصل کا روزن کھلے زندانِ فرقت میں |
اسیرِ عشق کب تک ضبط کی زنجیر سے الجھے |
یہ کہہ دو حسن والوں سے محبت چھوڑ دی ہم نے |
نہ اب کوئی سحابِ عاشقِ دلگیر سے الجھے |
معلومات