اک رشکِ حور حسن پہ مغرور ہے سحاب
اک دل کہ اس کے عشق سے معمور ہے سحاب
کیسا دیارِ عشق کا  دستور ہے سحاب
ہر رانجھا اپنی ہیر سے ہی  دور ہے سحاب
لیلی ہے ہجرِ قیس  میں  غمگین اشکبار
مجنوں فراقٍ لیلی میں رنجور ہے سحاب
اک چاند کٍھل سکا نہ مرے آسماں پہ حیف
ہر رات اپنی زیست کی بے نور ہے سحاب
تاروں کو توڑ لانا مری جان ہے محال
سمجھو نہ سامری اسے، مزدور ہے سحاب
پہلی مئی کو چھٹی ہے مزدور کا ہے دن
چھٹی کے روز کام پہ مزدور ہے سحاب
اس بے وفا کے زخم کا مرہم نہیں کوئی
زخمِ جفا نہیں ہے یہ ناسور ہے سحاب
نازک مزاج دل جو دیا سنگ دل کے ہاتھ
سنگِ جفا سے آئینہ  دل  چور ہے سحاب
ترسے گا ابرِ  عشق کو اب تو   اے تشنہ کام
تیری نگاہٍ  بے وفا  سے دور ہے سحاب
جیتا ہوا تھا بازی مگر ہو گئی ہے مات
دشمن مری سپاہ میں مستور ہے سحاب

7