Circle Image

محمد اویس قرنی

@MOwais94

محمد اویس قرنی

تو سن اے ہم نشیں میرے
نومبر کا مہینہ ہے
ترا جانا نہیں بنتا
نومبر میں جو ہلکی سی
ہی دھند آتی ہے آنکھوں میں
تری نازک سی آنکھوں میں

0
1
مجھ کو تیری دید ہو جائے بچی ہے اک یہ آس
مجھ سے ملنے آ، میں تجھ سے کرتا ہوں یہ التماس
تو گیا تو ہر طرف بکھری رہی یہ زندگی
تیرے جانے پر یہ دل ہردم ہی رہتا ہے اداس
تجھ کو پا لوں یا فنا ہو جاؤں تیری چاہ میں
زندگی کی ہر گھڑی گزرے فقط تیرے ہی پاس

0
3
یونہی آ کر مرے دل کو تو نے ویران کیا
بتا تو اب کیا تیرا میں نے نقصان کیا
یادیں وابستہ ہیں تیری کہ رلاتی ہیں مجھے
کس لئے تم نے مجھے اتنا پریشان کیا
میں ترے عشق میں ،خود ہوش بھلا بیٹھا ہوں
میری حالت نے کبھی تم کو بھی حیران کیا

0
2
پہلے تو تیری دید کو ترسے جاتے ہیں
پھر آنکھ ترے چہرے کی تاب نہیں لاتی

0
3
اک دوجے پر جاں وارنے کو ہیں ہم
پھر بھی مگر مزاج نہیں ملتے

0
4
عمر آدھی میری گزر چکی
میں سنجیدہ نہ ہوا پھر بھی

0
4
پہلے سارے نشاں بدلتے ہیں
پھر مکیں کچھ مکاں بدلتے ہیں
رنگ بدلے ہیں تو نے جتنے دوست
اتنے گرگٹ کہاں بدلتے ہیں
یہاں ممکن نہیں گزارا اب
چھوڑ دو یہ جہاں بدلتے ہیں

0
6
تیرے بچھڑ جانے کی خبر جب سے ملی
میری آنکھوں میں ساون امڈ آیا ہے

0
3
وہ نومبر کی سرد سی راتیں
کیسے بھولوں تری ملاقاتیں
وہ ترا چاند کی طرف تکنا
نور کی چاند سے مناجاتیں
کتنے پر عزم تھے ترے وعدے
کتنی پرجوش تھیں تری باتیں

0
12
رب نے مجھ کو کوئی ایسی تو طبیعت دی ہے
زندگی بھر نہ کبھی دیکھی یہ راحت دی ہے
ہر طرف اس کی طلب، چار سو اس کا یہ خیال
رب نے دل کو یہ بھی کیسی ہی عنایت دی ہے
دیکھ کر اس کی طرف دل مرا لرزاں ہے اب
جانے کیوں مجھ کو یہ لمحے کی قیامت دی ہے

0
3
"دیکھا کروں میں تجھ کو یہی چاہتا ہے دل"
تیرے بغیر میرا بھی کتنا لگا ہے دل
تیری جدائی کو بھی کئی سال ہوچکے
ہر پل ترے وصال کو ہی سوچتا ہے دل
کیسے بتاؤں میں غمِ ہجراں زبان سے
تیری کمی میں میرا یہ کتنا دکھا ہے دل

0
7
یہاں رہبر کے ہاتھوں سے لٹا ہے کارواں اپنا
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
اسے تو دل سے چاہا تھا اسے اپنا سمجھتے تھے
مگر مطلب کی دنیا میں کوئی ہے ہی کہاں اپنا
تجھے پانے کی کوشش میں بھی بھٹکے در بدر تھے ہم
اسی کوشش میں پھر ہم نے گنوایا ہے جہاں اپنا

5
نہ گھبراؤ میرے یارو تمہارے ہیں سہارے ہم
"چلو تم رفتہ رفتہ آتے ہیں پیچھے تمہارے ہم"
کہ تم کو جو بھی کرنا ہے ابھی چل کے پہل کر دو
نتائج کچھ بھی ہوں یارو اٹھالیں گے خسارے ہم
بھنور میں پھنس گئے گر تو وہاں بھی حوصلہ رکھنا
یہاں بھی ڈوب کر لائیں گے تجھ کو پھر کنارے ہم

0
5
احباب مرے بھی ہیں اغیار کی مانند
چلتی ہے زبان ان کی تلوار کی مانند
وہ ہیں صدیق و امیں اور صاحبِ گفتار
ہم کاذب و خائن کے کردار کی مانند
لاگو نہیں ان پر تو گفتار کی شقیں
ہم مطبق قانون سے بے کار کی مانند

0
6
اک سانپ کو ہی دودھ پلانے میں لگے ہیں
یک طرفہ تعلق کو نبھانے میں لگے ہیں
ہم ہیں کہ اسی پر یونہی جاں وار رہے ہیں
اک وہ ہیں کہ پیچھا ہی چھڑانے میں لگے ہیں
یہ حال کہ پروا بھی نہیں اُن کو ہماری
اک ہم ہیں کہ خوابوں کو سجانے میں لگے ہیں

0
4
غمِ فراق میں سب کچھ گنوائے بیٹھے ہیں
"حواس و ہوش جنوں میں اڑائے بیٹھے ہیں"
دلِ تباہ کو راحت نہ مل سکی کہیں بھی
سکوں کے نام کو بھی اب بھلائے بیٹھے ہیں
خیالِ یار کو ہم نے بھلایا ہی کب ہے
اسی خیال کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں

0
3
دوست میرا بھی مجھ کو آنکھیں دکھا رہا ہے
یہی وہ دکھ ہے جو مجھ کو اندر سے کھا رہا ہے
قدم قدم پر مصیبتوں سے تو لڑ رہا ہوں
پہ غم محبت کا مجھ کو پاگل بنا رہا ہے
اٹھا کے جس کو بٹھایا دل کے حسیں محل میں
وہ شخص ہر پل مجھے نظر سے گرا رہا ہے

0
3
کوئی بہار آئے تو رونق ادھر لگے
اس بستی میں کوئی بھی تو اچھا شجر لگے
چکر ہیں اتنے کاٹے اسی کی تلاش میں
مجھ کو تو کوئے جاناں بھی اپنا ہی گھر لگے
میں نے تو ترک کی تھی محبت کی جستجو
اب تو یہ راستہ بھی بڑا پر خطر لگے

0
3
اس کی تصویر دیکھ رکھی ہے
ہم نے اک ہیر دیکھ رکھی ہے
عشق کرنا نہیں ہے مشکل پر
اس کی تاثیر دیکھ رکھی ہے
پیار کے خواب مت دکھا ہم کو
اس کی تعبیر دیکھ رکھی ہے

0
4
اُٹھائے روح جسموں میں ،کہ ہم بےکار بیٹھے ہیں
"تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں
تیرا کہنا کہ آئیں ہم ،منا کر تجھ کو لے جائیں
مگر ہم بھی ترے در پر ،ہزاروں بار بیٹھے ہیں
ادب سے آؤ محفل میں،نگاہیں بھی جھکا لو اب
وہ دیکھو حسن والوں کے، یہاں سردار بیٹھے ہیں

0
4
یہی محفل ذرا دیکھو، جہاں اغیار بیٹھے ہیں
یہاں پر ہی مرے اپنے کوئی دو چار بیٹھے ہیں
نہ ڈھونڈو تم مرے دشمن، یہیں پر ہی ملیں گے وہ
یہاں کچھ ساتھ ہیں میرے، تو کچھ اس پار بیٹھے ہیں
ہمیں بھی تو فراغت میں یہاں لوٹا ہے اپنوں نے
کہ اب غیروں سے لٹنے کو بھی ہم تیار بیٹھے ہیں

0
5
رات کی بانہیں نیلی ہیں
صبح کی آنکھیں پیلی ہیں
کس کو رو کر آئی ہے
تیری آنکھیں گیلی ہیں
کڑوی کڑوی سب باتیں
جام سمجھ کر پی لی ہیں

0
3
کتنا بدنام ہوں کون جانے مجھے
میں ترے نام ہوں کون جانے مجھے
زندگی بھر تمھاری تمنا رہی
کیسا ناکام ہوں کون جانے مجھے
اے خدا وند، اے خالقِ کائنات
بندۂ عام ہوں کون جانے مجھے

0
4
اس نے آنکھوں سے تو اشارہ کیا
ہم نے دیکھا، مگر کنارہ کیا
وہ پلٹ کر نہ آیا پھر واپس
ہم نے بھی صبر سے گزارا کیا
آپ پر تکیہ کر لیا اور پھر
ہم نے اپنا بڑا خسارہ کیا

0
4
تو گیا تو ہمیں تنہائی کا احساس ہوا
زخم کو زخم کی گہرائی کا احساس ہوا
ذہن مفلوج ہے اور یاد کوئی چیز نہیں
تیری ہجرت سے یوں پسپائی کا احساس ہوا
ہے تری یاد کو سینے میں سمایا جب سے
ہم کو بھی سینے کی چوڑائی کا احساس ہوا

0
5
یہاں کوئی کنارہ ہے؟
کوئی اپنا سہارا ہے؟
اندھیرا چھا گیا ہے یاں
ادھر کوئی ستارہ ہے؟
اسی نے حال پوچھا ہے؟
اسے بو لو گزارا ہے

7
ذوق و غالب بھی نہیں
فیض و جالب بھی نہیں
اب قلم میں وہ شرر
یا مطالب بھی نہیں
وہ سخن جس کا یہاں
کوئی طالب بھی نہیں

6
تو بھی بے پردہ ہمارے پاس آئے
ہم بھی پھر نظریں جھکائیں آداب

0
3
نعت
میری بخشش کا ہیں سامان مدینے والے
آپ پر جاؤں میں قربان مدینے والے
آپ نے پائی ہے کیا شان مدینے والے
دونوں عالم کے ہیں سلطان مدینے والے
روز دیدار جنہیں روضۂ اطہر کا نصیب

0
4
تم سے بچھڑوں گا تو پھر جا کے سنبھل جاؤں گا
غم کو سینے سے لگا کر میں نکل جاؤں گا
کربِ ہجراں میں یہ دل بھی کہ سلگتا ہی رہے
ایک دیدِ رخِ جاناں سے اچھل جاؤں گا
مجھ کو تعبیر بتائی ہے معبر گو نے
اپنے اندر کی میں شعلے سے ہی جل جاؤں گا

0
6