دوست میرا بھی مجھ کو آنکھیں دکھا رہا ہے |
یہی وہ دکھ ہے جو مجھ کو اندر سے کھا رہا ہے |
قدم قدم پر مصیبتوں سے تو لڑ رہا ہوں |
پہ غم محبت کا مجھ کو پاگل بنا رہا ہے |
اٹھا کے جس کو بٹھایا دل کے حسیں محل میں |
وہ شخص ہر پل مجھے نظر سے گرا رہا ہے |
جسے سب الفاظ بولنے کو سکھائے میں نے |
درست کر لوں میں اپنا لہجہ بتا رہا ہے |
نہ دوست باقی نہ کوئی سایہ وفا کا قرنی |
یہ وقت ہر پل نیا فسانہ سنا رہا ہے |
معلومات