عشق کی پیچیدگی نے مار ڈالا
مجھ کو تیری بندگی نے مار ڈالا
چاہ کر بھی مسکرا پایا نہیں ہوں
دل کو یوں افسردگی نے مار ڈالا
تجھ پہ تکیہ کرکے آیا ہوں میں پھر سے
مجھ کو میری سادگی نے مار ڈالا
میری محفل سے تو اٹھ کر آ گیا تھا
بس اسی شرمندگی نے مار ڈالا
ایک ایسا سانحہ پیش آیا مجھ کو
جیتے جی ہی زندگی نے مار ڈالا
محمد اویس قرنی

0
10