| باتوں میں اس کی کوئی بھی لذت نہیں رہی |
| یا پھر ہمیں مذاق کی عادت نہیں رہی |
| دنیا کے رنگ و ڈھنگ نے بدلا ہے اس طرح |
| ہنستے تھے کل مگر وہ طبیعت نہیں رہی |
| کرنے لگا وہ ترکِ محبت کی بات جب |
| دل نے کہا اب اس کی ضرورت نہیں رہی |
| رستے میں وہ ملا تو نظر موڑ لی گئی |
| لگتا ہے پہلے جیسی محبت نہیں رہی |
| یک طرفہ پیار کی تو جب آئی سمجھ ہمیں |
| قرنی ہمارے دل میں وہ شدت نہیں رہی |
| محمد اویس قرنی |
معلومات