| جب درد بڑھا حد سے میخانے نکل آئے |
| پھر میرے لبوں پر بھی غالب کی غزل آئے |
| الفت میں تمہاری ہم برباد تو ہو بیٹھے |
| کوچے میں تمہارے پھر ہم جا کے سنبھل آئے |
| جو خواب سجائے تھے اک بھی نہ ہوا پورا |
| دنیا کے تماشے سے اب ہم تو نکل آئے |
| ہر سانس پہ پابندی ہر گام پہ بندش ہے |
| دنیا کی فضا جیسے زنجیر میں ڈھل آئے |
| تجھ چاند سے ملنے کو ، گو خالی ہی لوٹے ہیں |
| پر تیرے نمک کو ہم ان زخموں پہ مٙل آئے |
| قسمت یہ ہماری تھی کرتے ہی کیا قرنی |
| جو لوگ بھی اپنے تھے وہ زہر اگل آئے |
معلومات