غمِ فراق میں سب کچھ گنوائے بیٹھے ہیں
"حواس و ہوش جنوں میں اڑائے بیٹھے ہیں"
دلِ تباہ کو راحت نہ مل سکی کہیں بھی
سکوں کے نام کو بھی اب بھلائے بیٹھے ہیں
خیالِ یار کو ہم نے بھلایا ہی کب ہے
اسی خیال کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں
ہم اپنے حال پہ خود ہی ہیں اب تماشائی
غموں کی بزم کو دل میں سجائے بیٹھے ہیں
یہاں تو حق ہی نہیں ہے اب ہمارا جینے کا
کہ زندگی کو بھی یونہی گنوائے بیٹھے ہیں
محمد اویس قرنی

0
3