| تم سے بچھڑوں گا تو پھر جا کے سنبھل جاؤں گا |
| غم کو سینے سے لگا کر میں نکل جاؤں گا |
| کربِ ہجراں میں یہ دل بھی کہ سلگتا ہی رہے |
| ایک دیدِ رخِ جاناں سے اچھل جاؤں گا |
| مجھ کو تعبیر بتائی ہے معبر گو نے |
| اپنے اندر کی میں شعلے سے ہی جل جاؤں گا |
| ساقیا اپنے مئے خانے سے بھر بھر کے پلا |
| تشنگی مٹ گئی میری تو مچل جاؤں گا۔ |
| اب کہ الفت کے یہ لمحے بھی تمہیں یاد رہیں |
| چال اچھی سی کوئی یار میں چل جاؤں گا |
| محمد اویس قرنی |
معلومات