| اُٹھائے روح جسموں میں ،کہ ہم بےکار بیٹھے ہیں |
| "تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں |
| تیرا کہنا کہ آئیں ہم ،منا کر تجھ کو لے جائیں |
| مگر ہم بھی ترے در پر ،ہزاروں بار بیٹھے ہیں |
| ادب سے آؤ محفل میں،نگاہیں بھی جھکا لو اب |
| وہ دیکھو حسن والوں کے، یہاں سردار بیٹھے ہیں |
| لٹے جب اپنوں کے ہاتھوں، تو ہوش آئے ٹھکانوں پر |
| اسی بابت اب اپنے دل میں ہم ہشیار بیٹھے ہیں |
| سکوں پایا نہیں دل نے ،ذرا بھر بھی بنا تیرے |
| کہ ہم بس اوصل کے سپنے، لیے بیدار بیٹھے ہیں |
| تمھارے حسن پر کوئی سخن پورا نہیں آیا |
| سخن ور بھی سرِ محفل، لیے اشعار بیٹھے ہیں |
| اٹھا لائے ہیں قرنی کیوں ،جنازے عشق والوں کے |
| یہاں دیکھو یہ اہلِ دل ، بنے فنکار بیٹھے ہیں |
| محمد اویس قرنی |
معلومات