یہاں رہبر کے ہاتھوں سے لٹا ہے کارواں اپنا |
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا |
اسے تو دل سے چاہا تھا اسے اپنا سمجھتے تھے |
مگر مطلب کی دنیا میں کوئی ہے ہی کہاں اپنا |
تجھے پانے کی کوشش میں بھی بھٹکے در بدر تھے ہم |
اسی کوشش میں پھر ہم نے گنوایا ہے جہاں اپنا |
ضرورت تھی چراغاں کی تجھے بھی اے مرے ساتھی |
تیری تنگی مٹانے کو جلایا آشیاں اپنا |
ہمارے دل کی دنیا بھی عجب ویران ہے اب تو |
نہ تیرا آسرا ہے اب نہ ہے باقی مکاں اپنا |
گماں تھا ہم کو تو بھی راستے میں چھوڑ جائے گا |
مگر اب تو یقیں میں ہیں کہ اچھا تھا گماں اپنا |
محمد اویس قرنی |
معلومات