کچھ لوگ ہیں جو مجھ کو ہرانے پہ تلے ہیں |
منزل سے میری مجھ کو ہٹانے پہ تلے ہیں |
ہر موڑ پہ دیوار بھی کھینچی ہوئی ان کی |
ہر گام پہ مشکل وہ بڑھانے پہ تلے ہیں |
خدشہ ہے انہیں لوگ کہیں جاگ نہ جائیں |
وہ تب ہی صدا میری دبانے پہ تلے ہیں |
میں صبر کے دامن کو ہوں تھامے ہوئے اب تک |
وہ زخم نئے مجھ کو لگانے پہ تلے ہیں |
پھر بھی نہ شکایت نہ کوئی حرفِ گلہ ہے |
ہم درد کو سینے میں چھپانے پہ تلے ہیں |
محمد اویس قرنی |
معلومات