میرے پاؤں گھس گئے ہیں رہ گزر میں |
کھو دیا ہے قافلے کو کس نگر میں |
ڈوب جانے کا سماں ہے اپنے اندر |
اک طلاطم سا اٹھا ہے چشمِ تر میں |
درد کی گونجیں لہو میں خیمہ زن ہیں |
شور ان کا ہر طرف ہے میرے گھر میں |
وقت کے ہاتھوں لٹائے خواب اپنے |
زندگی کا تجربہ ہے اس ہنر میں |
اب تو وحشت بھی یہ مجھ سے پوچھتی ہے |
کون رہتا ہے تمھارے بام و در میں |
ہجر کی شب بھی کٹی ہے مسکراتے |
ضبط کیسا ہے مرے جان و جگر میں |
محمد اویس قرنی |
معلومات