میرے پاؤں گھس گئے ہیں رہ گزر میں
کھو دیا ہے قافلے کو کس نگر میں
ڈوب جانے کا سماں ہے اپنے اندر
اک طلاطم سا اٹھا ہے چشمِ تر میں
درد کی گونجیں لہو میں خیمہ زن ہیں
شور ان کا ہر طرف ہے میرے گھر میں
وقت کے ہاتھوں لٹائے خواب اپنے
زندگی کا تجربہ ہے اس ہنر میں
اب تو وحشت بھی یہ مجھ سے پوچھتی ہے
کون رہتا ہے تمھارے بام و در میں
ہجر کی شب بھی کٹی ہے مسکراتے
ضبط کیسا ہے مرے جان و جگر میں
محمد اویس قرنی

0
3