Circle Image

saleem jamal

@saleem786

رشتے تو سبھی نِبھا رہا ہوں
لیکن کچھ بس چَلا رہا ہوں
ہے چھوڑ دیا شکوہ کرنا
زیرِ لب مُسکرا رہا ہوں
باطِن کے وحشی جانور کو
الفت کا سبق پڑھا رہا ہوں

11
آنکھ میں جب نمی نہیں رہتی
عشق میں بے خودی نہیں رہتی
ٹوٹ جائے اگر بھروسہ تو پھر
رشتوں میں چاشنی نہیں رہتی
بُغض میں مُبتلا ہوا جو اگر
روح میں تازگی نہیں رہتی

25
وہ دعا ' اے مرے یار ! کامل نہیں
اشک اخلاص کے جس میں شامل نہیں
ایسی دولت سے نانِ جویں خوب ہے
جب سکونِ دل و جان حاصل نہیں
کیسے دے گا وہ درسِ محبت بھلا
جو حقیقت میں خود اِس کا حامل نہیں

18
مِری تسبیح کے بکھرے ہیں یوں دانے سارے
رفتہ رفتہ ہوئے گُم چہرے پُرانے سارے
یاد کے شہر میں اب بھی دلِ نادان مرا
کُو بہ کُو ڈھونڈتا ہے گُزرے زمانے سارے
ناز تھا جن کو کفِ چارہ گری پر یارو
ہیں کہاں دردِ دروں میں وہ سیانے سارے

15
صاحبِ مقدُور اِتنا ہم پہ چِلاتا کیا ہے؟
سہمے سہمے زندہ لاشے ڈراتا کیا ہے؟
ہیں دشمن کھڑے شمشیریں لئے سر پہ ہمارے
اپنا ہو کے تیر اپنوں پہ تُو برساتا کیا ہے؟
جب مفتی و قاضی ہی ہوں شاہوں کے ہم نوا
پھر کُنجِ زنداں میں شور مچاتا کیا ہے؟

29
رگوں میں جو لہو اُبل رہا ہے
کچھ نہ کچھ آج دل کو پھر ہوا ہے
مطلبی ہے یہ دُنیا جب ساری
کسی سے کیا جمال پھر گِلہ ہے

0
35
اندھے گونگے بہرے قاضی ہو گئے
رہنما باطل کے حامی ہو گئے
سر اُٹھایا جس نے بھی اپنا یہاں
شہرِ ظُلمت کے وہ باغی ہو گئے
توڑ کے رشوت کے لُقمے عمر بھر
آخرش حاجی نمازی ہو گئے

0
30
لوگوں کی باتوں سے دل بُرا نہیں کرتے
اندیشوں کے سانپوں کی پروا نہیں کرتے
جن کی آنکھوں میں چمکتا ہو خورشیدِ منزل
مڑ کے قدموں کے نشاں وہ دیکھا نہیں کرتے

0
26
میں کہہ گیا تھا تجھے اپنی رائیگانی میں
پِھسل ہی جاتی ہے اکثر زباں روانی میں
نگاہِ یار کے بس ایک زاویے کے سبب
اُجڑ گیا ہے مرا باغِ دل جوانی میں
لکھے گا جب کوئی افسانۂ جنوں یارو
مرا بھی نام کہیں آئے گا کہانی میں

0
27
کس نے کہا ہے رنگ زمیں کی چمک کے دیکھ
اِک بار تُو بھی رازِ نہاں خود فلک کے دیکھ
کُھل ہی نہ جائے سب پہ کہیں تیرے دل کا راز
زخموں کو قہقہوں کی رداوُں سے ڈھک کے دیکھ
تُجھ کو بھی اپنے ساتھ کی دُنیا دکھائی دے
سر سے تُو کوہِ کبر کو اپنے جھٹک کے دیکھ

0
29
کیا کیا ہے کھویا اور کیا ہے مِلا مجھے
اے قلبِ شکستہ یاد مت کچھ دِلا مجھے
سفر زندگی کا رائیگاں ہی گیا مرا
نہ ملا تُو اور نہ ہی ملا ہے خُدا مجھے

0
22
ناداں نکلے ورنہ ملے تو تھے اشارے بہت
کہ محبت میں ہوتے ہیں بھاری خسارے بہت
یہ ترا ہی جنوں تھا جو غرق ہوا بحرِ الفت
ورنہ کشتیِ جاں کی نِگہ میں تھے کنارے بہت
اِک ہم ہی نہیں گرداشِ دوراں میں خاک بسر
اِس دنیا میں رنج و غم کے ہیں مارے بہت

0
2
41
حُسن و شباب پہ تیرے زمانہ مرتا ہے
درشن کو شب بھر مہتاب ترستا ہے
ہے سر سبز وجود سے تیرے فصلِ شباب
سانسوں کی خوشبو سے گلشنِ دہر مہکتا ہے
گیسوؤں میں سے ٹپکتی بُوندوں کی رنجش میں
بادل لیل و نہار گرج کے برستا ہے

0
28
تیری دُنیا کے رنگ دیکھے ہیں
قلب لوگوں کے تنگ دیکھے ہیں
سارے مخلص نہیں ہیں رستے میں
کچھ منافق بھی سنگ دیکھے ہیں
دشمنوں سے گلہ نہیں کوئی
میں نے یاروں کے ڈنگ دیکھے ہیں

0
32
نُور مدھم سہی ضیا تو ہے
چاند تاروں نے کچھ دیا تو ہے
بُجھ گیا جو چراغِ سحر تو کیا
ظُلمتِ شب میں یہ جلا تو ہے
چاہے ریشم کی ایک تار بُنی
مرنے سے پہلے کچھ کیا تو ہے

29
مُجھ سے مت پُوچھو غمِ عاشقی کی رُوداد
میں رانجھا ہوں اور نہ ہی کوئی فرہاد
اتنا بھی مان نہ کر اِس حُسنِ گُلابی پر
کِبر تو تقویٰ بھی کر دیتا ہے برباد

0
17
وہ کیسے حسیں زیست کے حالات کرے گا
برباد جو خود اپنی اگر ذات کرے گا
جب دل کا لہو دل میں ہی برفاب ہوا ہو
پھر کس سے محبت کی کوئی بات کرے گا
مایوس ہوا ہو جو میاں عقل و خِرد سے
کچھ اور سَوا دل کے وہ صدمات کرے گا

3
51
مدت ہوئی جب تجھ سے کوئی بات نہیں ہے
اِس واسطے جذبات میں برسات نہیں ہے
وہ جس میں چمکتے تھے مرے مرمریں سپنے
آنگن میں مرے چاند کی وہ رات نہیں ہے
اُس رب کا کرم ہے کہ بہت کچھ ہے مرے پاس
اِک تیری کمی ہے تُو مرے ساتھ نہیں ہے

23
تاریکیوں میں جیسے ستارے نکلتے ہیں
غم سے ہمارے عِلم کے دھارے نکلتے ہیں
نفرت کسی کی جل تو رہی ہے وجود میں
ہر لفظ میں جو اپنے شرارے نکلتے ہیں
اب تو یہ بات ہم کو بتائے گا وقت ہی
اِن دشمنوں میں کتنے ہمارے نکلتے ہیں

2
58
کسی غرض سے وہ میرے دیار میں آیا
میں نے یہ سمجھا کہ وہ میرے پیار میں آیا
میں نے تھی کھائی قسم تُجھ کو بُھول جانے کی
لبوں پہ نام ترا تو بُخار میں آیا
وفورِ درد سے دل میرا ہو گیا پتھر
کسی غمِ دروں کے یہ حصار میں آیا

2
45
جو درد چُھپا رکھا تھا دل کے چھالوں میں
عیاں بھی ہوا تو ہوا آنکھوں کے پیالوں میں
کچھ ایسی ہوئی سِیہ راتوں سے فُرقت میں الفت
کہ مری تو آنکھ ہی دکھتی ہے اب اُجالوں میں
فرصت ہی نہ ملی کہ جی لیتا کچھ اپنے لئے
پھنس کے رہ گیا ہوں غمِ ہستی کے جالوں میں

0
24
موسمِ فصلِ بہاراں جو پلٹ آئے گا
وقت پھر جیسا بھی مشکل ہو وہ کٹ جائے گا
نغمہ بلبل کا سدا گونجے گا گلشن گلشن
شاخ در شاخ یہ بھنورا یونہی منڈلائے گا
دن بدن بڑھتی چلی جائے گی یہ آنکھ کی دُھند
کب تلک دل کا دِیا روشنی دے پائے گا

0
19
میکدے میں شراب باقی ہے
ابھی میرا شباب باقی ہے
رکھ دیا ہے جلا کے دل میرا
اور کتنا حساب باقی ہے
آج کا دن بھی تھا اُداس بہت
ابھی شب کا عذاب باقی ہے

30
کوئی تو ابر اِدھر آئے گا زر کی مانند
میں ہوں صحرا میں کھڑا سُوکھے شجر کی مانند
یادِ رفتہ سے کوئی عشق دھواں دیتا ہے
دل مرا جلتا ہے اِک آہِ شرر کی مانند
کوئی تو آ کے تراشے گا کبھی ہاتھوں سے اپنے
میں ہوں اِک سنگِ سرِ راہگزر کی مانند

0
22
یہ زندگی فُرقتِ حبس میں بے جاں ٹھہر گئی ہے
اے دلِ حزیں روٹھی بادِ بہار کدھر گئی ہے
تا عمر بھٹکتے رہے ہم دشتِ تمنا میں
جو اِک خواہش نے جنم لیا تو اِک مر گئی ہے
میں رویا اور نہ ہی کُھل کر ہنسا جب اے دل
پھر وقتِ جدائی آنکھ مری کیوں بھر گئی ہے

0
22
پیالۂ زہر بھرا دے رہے ہیں
اُنس و وفا کی جَزا دے رہے ہیں
دردِ جگر دے کے ہم کو وہ کافر
بیٹھ کے پاس دوا دے رہے ہیں
جلتے ہیں جِن انگاروں پر ہم
غم خوار اُن کو ہوا دے رہے ہیں

0
15
نَے کوئی دیدہ ور اور نہ ہی رہبر اپنا
کامراں کیسے ہو عشقِ جنوں کا یہ سفر اپنا
قطرہ قطرہ نہ بھر دل میرا درد سے اے زیست
تُو یک بار اُتار دے لہو میں یہ زہر اپنا
اتنا بھی نہ ڈرا اے واعظ موت سے ہم کو
آ ہی نہ جائے کہیں سُن سُن کے یہ ذِکر اپنا

0
25
شبِ غم کا یہ چاند آج کہاں سے آ نکلا
مرا دل شاید کسی زخمی یاد میں جا نکلا
چھپا رکھا تھا یہ دردِ ستم سینے میں مگر
میرا آنسو بھی تیری طرح بے وفا نکلا
میں سمجھتا تھا کہ میں ہی غم کا مارا ہوں مگر
جس کو بھی دیکھا وہ درد کا اِک دریا نکلا

0
29
وہ جفا کر کے بھی باکردار نکلے
ہم وفا کر کے بھی گُنہ گار نکلے
سُولی چڑھا تو دیکھا یہ صحنِ مقتل
میرے مُنصف میرے ہی کچھ یار نکلے
حالِ دل میرا جب بھی پوچھا کسی نے
میری آنکھوں سے آنسو ہر بار نکلے

33
شامِ الم ڈھل بھی جائے تو اثر رہتا ہے
ڈنک نکال بھی دو تو زہر مگر رہتا ہے
جا کے کوئی تو بتلائے یہ ابرِ کرم کو
دل میں مرے اِک سُوکھا اُداس شجر رہتا ہے
گو کہ گُزر چکا ہے غمِ دوراں کا موسم
پھر بھی اجنبی سا دل میں اِک ڈر رہتا ہے

0
23
غزل ۔۔
سہم جاتا ہے اب یہ دل میرا
کسی آسیب کا ہے یاں ڈیرا
نِبھا لیتا میں عشق یہ شاید
پڑا تھا روزگار کا گِھیرا
اپنوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں

0
15
حشر کے دن پڑے لالے ہوں گے
سب کی زباں پر تالے ہوں گے
ظُلم جنہوں نے پالے ہوں گے
اُن کے دل بھی کالے ہوں گے
مت کر میرے مرنے پہ ماتم
تم نے بھی جام اُچھالے ہوں گے

0
26
زندگی کر کے بیزار چلا گیا
مجھ کو وہ کر کے بیمار چلا گیا
پہلے تو کیا خَس و خار یہ دل مرا
رکھ کے پھر اِس پہ انگار چلا گیا
ناخُدا چھوڑ کے بیچ طوفاں مجھے
خونی دریا کے خود پار چلا گیا

0
38
دل کا کیا ہے اِک روز بہل ہی جائے گا
کوئی تو خوشبو کا جُھونکا اِسے ٹکرائے گا
شبِ ہجر تو ڈھل ہی جائے گی ہولے ہولے
پر بِن ترے عید کا چاند بہت تڑپائے گا
اِتنا دیکھا ہے میری آنکھوں نے تجھ کو کہ اب
رہ رہ کے چہرہ تیرا خوابوں میں ستائے گا

0
28
زندگی بے وفا ہوتی ہے
پھر بھی یہ دلرُبا ہوتی ہے
چاہتا کون ہے مرنا یاں
موت تو بد دعا ہوتی ہے
آتشِ عشق میں زندگی
دھیرے دھیرے فنا ہوتی ہے

0
52
مے خانوں میں بے خودی بولتی ہے
یہ تُو نہیں مے کشی بولتی ہے
نہیں جب ہوتا کوئی پاس مرے
تو بے زباں خامشی بولتی ہے
تم کچھ بھی نہ بولو تو پھر بھی ترے
چہرے کی اُداسی بولتی ہے

61
بُغض ہے دل میں تو چہروں پہ سجاوٹ کیوں ہے
پیار کے رشتوں میں یہ اتنی بناوٹ کیوں ہے
میں نے تو حق کی بس اِک بات کہی تھی لیکن
تیرے چہرے پہ ندامت کی تھکاوٹ کیوں ہے
تُو نے ہر گام پہ جب مجھ کو دیے ہیں دھوکے
تیری آنکھوں میں چھلکتی یہ لگاوٹ کیوں ہے

25
سیکھا ہے درویشوں کی مدہوشی سے
سہ لیتا ہوں سب باتیں خاموشی سے
کیسا لاپرواہ ہے دلبر میرا بھی
سُن نہ سکا جو آہ بھی ہم آغوشی سے
کچھ بھی نہیں باقی اب بزمِ رِنداں میں
مرتے نہیں ہیں غم بھی اب مے نوشی سے

27
عقل و دانِش کا دم نِکل جاتا ہے
آنکھوں کو کچھ نظر نہیں آتا ہے
پھیکی پڑ جاتیں ہیں سب تدبیریں
جب رنگ مقدر اپنا دِکھلاتا ہے

0
18
مال و جاہ و حسن و ضیا کچھ بھی نہیں
یہ دنیا دھوکے کے سِوا کچھ بھی نہیں
مُفلس کی چھاتی پہ چلے عدل کا تیر
زَردار کے واسطے سزا کچھ بھی نہیں

0
18
دامِ بھنور میں کوئی سہارا نظر نہیں آتا
کشتیِ غم کو بھی میری کِنارہ نظر نہیں آتا
گُم ہو گیا جو گُوشۂ شہرِ خَموشاں میں اِک بار
لاکھ پکارو بھی تو وہ دوبارہ نظر نہیں آتا
ظُمتِ شب کو مرا جو زوال سمجھ بیٹھے ہیں
چڑھتا ہے سُورج تو اِک تارا نظر نہیں آتا

21
تاراج جب سے یہ مرا شہرِ جُنُوں ہوا
ناحق گلی گلی میں گلابوں کا خوں ہوا
ہم کس سے پوچھیں شہر کے اُجڑنے کا سبب ؟
جب پاسباں کے ہاتھ سے حالِ زبوں ہوا
پھیلی ہوئی ہے چاروں طرف جو یہ خامشی
اُس کی نظر سے کون سا ایسا فسُوں ہوا ؟

23
خود شناسی میں کبھی ایسا مقام آتا ہے
آدمی جس میں تماشائی سا بن جاتا ہے
اشک کرنے چلے آتے ہیں چراغاں اُس میں
عشق اپنے لئے گھر دل میں جو بنواتا ہے
جب بھی کھل جاتے ہیں اسرارِ فقیری دل پر
آدمی غم میں بھی پھر لطف و سکوں پاتا ہے

0
28
شہرت کی بلندی پہ سنائی نہیں دیتا
اِس خبط میں آنکھوں کو سُجھائی نہیں دیتا
مسند پہ جو فرعون بنے بیٹھے ہوئے ہیں
مُوسٰی کا عصا اُن کو دکھائی نہیں دیتا
ایسا نہ ہو ہم اپنی زباں کاٹ لیں یارو
صیاد قفس سے جو رہائی نہیں دیتا

0
23
اُداسی یہ بے شُمار کیسی
بھڑکتی ہے دل میں نار کیسی
ہواؤں میں بس گئی ہے خُوشبو
ترے بِنا یہ بہار کیسی
نہیں جو ہے کوئی دل میں میرے
ہے آتی پھر یہ پُکار کیسی

0
18
جب سے یہ دنیا بنی ہے
یاں محبت کی کمی ہے
نفرتیں ہیں مسندوں پر
فرش پر الفت دھری ہے
بند ہیں سب دل کے رستے
برف جذبوں پر جمی ہے

24
رات اندھیری اور تنہائی
یادوں کی میں نے شمع جلائی
سیکھی کہاں سے یہ شعلہ نوائی
میرے دل میں جو آگ لگائی
پھولوں سے یارانہ تھا میرا
خوشبو سے ہی چوٹ ہے کھائی

0
24
جو غم تُو دے کے بیٹھا ہے
وہ آنسو بن کے بہتا ہے
یہ جو پتھر ہے رستے میں
یہ بلکل میرے جیسا ہے
یہ سپنا بس نہیں سپنا
مرا یہ کُل اثاثہ ہے

0
29
دِیے مدھم نہیں ہوتے
مرے غم کم نہیں ہوتے
مہک اُٹھتا تھا جب یہ دل
وہ اب موسم نہیں ہوتے
بگڑ کیا جاتا دُنیا کا
یہاں جو ہم نہیں ہوتے

30
اکثر کھو سا جاتا ہوں میں
رنج و الم آہِ سوزاں میں
مُلکِ عدم کے رازِ نہاں میں
خوابوں کے شہرِ ویراں میں
دُنیا کے شُورِ طِفلاں میں
ہوش و خِرد اور سُود و زیاں میں

38
غم سے عِلم کے دھارے نکلے
تاریکی میں تارے نکلے
جلتا ہے کچھ قلب و جاں میں
لب جو کُھلے، انگارے نکلے
وقت برا ہے، یہ مت پوچھو
کتنے سجن ہیں ہمارے نکلے

34
تم نے ابھی کھیلی بھی نہیں آنکھ مچولی ہے
اور میں نے جوانی صحرا گردی میں رولی ہے
گر شوقِ تماشہ کبھی اُٹھا جو مرے دل میں
تو آنسوؤں سے کھیلی اپنے میں نے ہولی ہے
جب بھی کبھی نِکلا بہلانے کو میں جی گھر سے
میری غمِ ڈولی میرے ساتھ ہی ہو لی ہے

0
37
وہ عقل و خِرد بدگُماں لگتی ہے
جس کو نارِ عشق دُھواں لگتی ہے
گردن میں ہو جس کے طوقِ اِبلیسِیت
اُس کو بانگِ اَذاں گَراں لگتی ہے

27
کبھی بھولی ہوئی یادوں کی جب بارات آتی ہے
تو میری آنکھ میں اشکوں کی اک برسات آتی ہے
برستی جب بھی ہیں بوندوں کی ٹپ ٹپ دل کے صحن میں
مرے اندر ترے غم کی اُداسی ساتھ آتی ہے
یونہی جلتے نہیں ہیں یہ چراغِ زخم برسوں سے
ہمارے دل کو تڑپانے کو لمبی رات آتی ہے

41