کسی غرض سے وہ میرے دیار میں آیا
میں نے یہ سمجھا کہ وہ میرے پیار میں آیا
میں نے تھی کھائی قسم تُجھ کو بُھول جانے کی
لبوں پہ نام ترا تو بُخار میں آیا
وفورِ درد سے دل میرا ہو گیا پتھر
کسی غمِ دروں کے یہ حصار میں آیا
جتن تو لاکھ کئے پر مرا جی آوارہ
کبھی مرے بھی نہ یہ اختیار میں آیا
جمالؔ جیت چکا تھا میں عشق کی بازی
قرار و لُطف مگر اپنی ہار میں آیا

2
45
کمال کر دیا جناب

نوازش