کسی غرض سے وہ میرے دیار میں آیا |
میں نے یہ سمجھا کہ وہ میرے پیار میں آیا |
میں نے تھی کھائی قسم تُجھ کو بُھول جانے کی |
لبوں پہ نام ترا تو بُخار میں آیا |
وفورِ درد سے دل میرا ہو گیا پتھر |
کسی غمِ دروں کے یہ حصار میں آیا |
جتن تو لاکھ کئے پر مرا جی آوارہ |
کبھی مرے بھی نہ یہ اختیار میں آیا |
جمالؔ جیت چکا تھا میں عشق کی بازی |
قرار و لُطف مگر اپنی ہار میں آیا |
معلومات