بُغض ہے دل میں تو چہروں پہ سجاوٹ کیوں ہے
پیار کے رشتوں میں یہ اتنی بناوٹ کیوں ہے
میں نے تو حق کی بس اِک بات کہی تھی لیکن
تیرے چہرے پہ ندامت کی تھکاوٹ کیوں ہے
تُو نے ہر گام پہ جب مجھ کو دیے ہیں دھوکے
تیری آنکھوں میں چھلکتی یہ لگاوٹ کیوں ہے
زندگی دوستو اِک جہدِ مسلسل ہے تو پھر
مرنے سے پہلے ہی یہ اتنی تھکاوٹ کیوں ہے
جب یہاں جو بھی ہے موجود وہ فانی ہے جمالؔ
پھر یہ دُنیا سے میاں اتنی لگاوٹ کیوں ہے

12