رُوبرو کا اقرار تو نہیں
من میں تیرے انکار تو نہیں
کٹ کے رہ گیا تِشنہ دل مرا
یہ زبان تلوار تو نہیں
آنکھوں میں ہے جو سُرخیٔ لہو
دل میں غم کا انگار تو نہیں
بہکا بہکا سا جو تُو رہتا ہے
ہو گیا کہیں پیار تو نہیں
سانس ہے تو جی لینے دو مجھے
خود سے ہوں میں بیزار تو نہیں
جو نہ ہو سکا ٹوٹ کر فنا
یہ خِرد کا پندار تو نہیں
عشق ایک ہی کافی ہے جمال
کوئی مرتا دو بار تو نہیں

0
4