یہ زندگی فُرقتِ حبس میں بے جاں ٹھہر گئی ہے
اے دلِ حزیں روٹھی بادِ بہار کدھر گئی ہے
تا عمر بھٹکتے رہے ہم دشتِ تمنا میں
جو اِک خواہش نے جنم لیا تو اِک مر گئی ہے
میں رویا اور نہ ہی کُھل کر ہنسا جب اے دل
پھر وقتِ جدائی آنکھ مری کیوں بھر گئی ہے
کچھ یوں توڑا بے دردی سے ناطہ اُس نے
کہ محبت خود بھی اپنے نام سے ڈر گئی ہے
اِک زندگی اور ملے تو کوئی کام کریں گے ہم
یہ تو باتوں، خوابوں، خیالوں میں ہی گزر گئی ہے

0
22