مجھ کو تجھ سے تو اجتناب نہیں
میں مگر خود کو دستیاب نہیں
مل بھی جائے جو خواہشوں کا چمن
وقت کی شاخ پر شباب نہیں
وہی رکھے گا فصلِ گُل سے بیر
جس کے آنگن میں اک گلاب نہیں
توڑ دینے کی مجھ کو ضد مت کر
میں حقیقت ہوں کوئی خواب نہیں
جو مری عیب جوئی میں ہیں مگن
اپنا کرتے وہ احتساب نہیں
جمع تفریق چھوڑ دے اے دل
ابرِ رحمت کو کچھ حساب نہیں

0
4